پشاور ( حسن علی شاہ سے ): بازار مسگران قصہ خوانی سے ملحقہ ھے قیام پاکستان سے چند سال قبل یہاں علی برادرز) کے نام سے ایک دکان قائم کی گئ جس میں تانبے اور پیتل کے ظروف فروخت کئے جاتے تھے۔
یہ ظروف یہاں کے مسگر بناتے تھے اور پاکستان سے باھر ممالک کو بھی یہ ھینڈی کرافٹس ایکسپورٹ کئے جاتے تھے صفر علی اور اختر علی یہ دونوں بھائی اپنے باپ کی وفات کے بعد یہ دوکان چلاتے رھے۔ اختر علی کو براس ماسٹر اور صدارتی ایوارڈ سے بھی حکومت پاکستان نے نوازا تھا۔ اس دکان پہ زیادہ تر خریدار غیر ملکی شخصیات دکھائی دیتی تھیں جو اسلام آباد سے خصوصی طور پہ اس دکان سے تانبے اور پیتل کے خوبصورت ظروف خریدنے آتے تھے۔
آج سے 15 سال قبل اختر علی کی وفات کے بعد انکے بھائی صفر علی جو سکول ٹیچر ھونے کے ساتھ ساتھ براس ماسٹر بھی تھے انہوں نے اپنے آبائی فن کو زندہ رکھا اور اس دکان کو قائم رکھنے کی ھر ممکنہ کوشش کی مگر خیبر پختونخواہ میں جب دہشتگردی کی باعث امن و امان کی صورتحال تشویشناک ھوگئ تو غیر ملکی سیاحوں نے پشاور آنا بند کردیا دوسری جانب تانبہ اور پیتل بھی مہنگا ھوگیا تو مسگروں نے اپنا آبائ ھنر بھی ترک کردیا اور یوں یہ پرانی تاریخی دوکان بھی قصہ پارینہ بن گئ 2 سال قبل صفر علی بھی انتقال کرگئے بازار مسگران تو ھے مگر اب نہ مسگر ہیں اور نہ مسگری کے نایاب اور انمول ھینڈی کرافٹس۔۔۔۔