گزشتہ کچھ عرصے سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فتنہ الخوارج، جو اپنے منحرف عقائد اور شدت پسند نظریات کے باعث جانے جاتے ہیں، کسی بھی کارروائی سے پہلے مساجد کو اپنی پناہ گاہ بنانے کا عمل اپناتے ہیں۔ ان دہشت گرد گروپوں کا مقصد صرف اپنی جنگی حکمت عملیوں کو چھپانا نہیں بلکہ ان عبادت گاہوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا ہے، جس سے اسلامی عبادت گاہوں کا تقدس اور مقصد متاثر ہو رہا ہے۔
مساجد جو اسلام میں عبادت، سکون اور روحانیت کا مرکز سمجھی جاتی ہیں، بدقسمتی سے ان دہشت گرد گروپوں کے لیے صرف ایک محفوظ پناہ گاہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ان کا مقصد نہ صرف اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کو پلان کرنا ہوتا ہے بلکہ جب وہ حملہ کرتے ہیں تو مساجد کو ڈھال کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں تاکہ سیکیورٹی فورسز کے ردعمل سے بچا جا سکے۔ دہشت گردوں کا یہ عمل اسلامی تعلیمات کے بالکل متصادم ہے، جو ہمیں بتاتی ہیں کہ مساجد صرف عبادت کے لیے مخصوص ہیں اور انہیں کسی بھی جنگی یا دہشت گردی کے مقصد کے لیے استعمال کرنا حرام ہے۔
حضرت رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: "قریب ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب سب سے بدترین لوگ مساجد میں بیٹھنے والے ہوں گے، جو وہاں چیخ و پکار اور دنیاوی باتیں کریں گے، ان کے ساتھ نہ بیٹھو، کیونکہ اللہ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں۔”
یہ حدیث آج کے حالات پر مکمل طور پر صادق آتی ہے، کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کچھ عناصر جو مساجد کے تقدس کا لحاظ نہیں رکھتے، وہ وہاں دہشت گردانہ سرگرمیاں اور مکروہ منصوبے تیار کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے، ان خوارج نے مساجد کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے، جو کہ ان کی شدت پسندانہ کارروائیوں کا ایک حصہ ہے۔
پچھلے چند مہینوں میں، متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں خوارج نے مساجد میں چھپ کر پاکستانی فوج پر حملے کیے ہیں۔ ان حملوں میں سیکیورٹی فورسز نے کامیابی سے دہشت گردوں کو ہلاک کیا لیکن اس کے باوجود خوارج اپنے حملوں کے لیے انہی عبادت گاہوں کو استعمال کرنے میں کامیاب رہے۔ ان دہشت گردوں کا مقصد صرف اپنی کارروائیوں کو چھپانا نہیں بلکہ دہشت گردانہ نظریات کو پھیلانا اور عوام میں خوف و ہراس پیدا کرنا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مساجد کا مقصد صرف اللہ کے ذکر اور نماز کے لیے ہے، تو وہاں ہتھیاروں، دہشت گردوں کی میٹنگز اور جنگی منصوبہ بندیوں کا کیا جواز ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ مساجد کا تقدس تب تک برقرار رہ سکتا ہے جب تک ان کا استعمال صرف عبادت کے لیے ہو، نہ کہ کسی دہشت گرد گروہ کے منصوبوں کو کامیاب بنانے کے لیے۔
یہی وہ عناصر ہیں جو خواتین اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہ بزدل دہشت گرد گروہ اپنی کارروائیوں کو چھپانے کے لیے نہ صرف اپنی جگہوں کو مساجد میں تبدیل کرتے ہیں بلکہ وہاں اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے معصوم افراد کو خطرے میں بھی ڈالتے ہیں۔ یہ گروہ جب حملے کرتے ہیں تو انہیں یہ پناہ گاہیں دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ان کی یہ حرکات نہ صرف اسلام کی روح کے خلاف ہیں بلکہ ان سے مسلمانوں کی ساکھ بھی متاثر ہو رہی ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ بعض مقامی سہولت کار بھی ان دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں، ان کی خوراک اور دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں، اور جب سیکیورٹی فورسز ان کے خلاف کارروائی کرتی ہیں تو یہ لوگ مذہب کا کارڈ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سہولت کار دہشت گردوں کی کارروائیوں کو آسان بنانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں، اور ان کے ساتھ تعاون کرنا کسی بھی مسلمان کے لیے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی عمل ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ خوارج ہمیشہ سے مقدس مقامات کا استعمال اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے کرتے آئے ہیں۔ ماضی میں بھی ہم نے کئی ایسے واقعات دیکھے ہیں جہاں دہشت گرد گروہ مساجد میں چھپ کر اپنی کارروائیاں کرتے تھے اور ان کے نتیجے میں وہ اپنی زندگیوں کا اختتام بھی اسی مقدس مقام پر پاتے تھے۔
یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے مساجد کو خوارج کے ناپاک عزائم سے پاک کریں اور ان کے سہولت کاروں کو بے نقاب کریں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف میدان جنگ میں نہیں بلکہ بیانیے کی سطح پر بھی جاری ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ اسلام امن، محبت، بھائی چارے اور برداشت کا مذہب ہے اور اس کی عبادت گاہیں ان تمام خوبیوں کی عکاس ہیں۔ ان عبادت گاہوں کو کسی بھی دہشت گرد گروہ کے لیے پناہ گاہ نہیں بننے دینا چاہیے۔
جو لوگ ان خوارج کی حمایت کرتے ہیں، وہ ان کے مجرمانہ عزائم میں شریک ہیں اور یہ وقت ہے کہ ہم حق کا ساتھ دیں، اپنی مساجد کو خوارج کے ناپاک عزائم سے آزاد کرائیں اور ان دہشت گردوں کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوں، تاکہ اللہ کے گھر اپنی اصل عظمت اور تقدس کے ساتھ قائم رہیں۔