جب ذی الحج کا چاند افق پر طلوع ہوتا ہے، تو مسلمان دنیا بھر میں روحانی جوش و جذبے سے سرشار ہو جاتے ہیں۔ عید الاضحیٰ، جسے عام طور پر عید قرباں کہا جاتا ہے، محض ایک تہوار نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال اطاعت، صبر اور قربانی کی یادگار ہے۔
یہ دن ہمیں صرف جانور ذبح کرنے کا موقع نہیں دیتا، بلکہ ایک عظیم سبق یاد دلاتا ہے اپنی خواہشات، انا، اور خودغرضی کو راہِ خدا میں قربان کرنے کا سبق۔ حضرت ابراہیمؑ نے خواب میں اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا حکم پایا اور بغیر کسی تردد کے اس حکم کی تعمیل پر آمادہ ہو گئے۔ بیٹے نے بھی اس خدائی حکم کے آگے سر تسلیم خم کیا۔ یہی وہ روح ہے جو عید الاضحیٰ کی اصل بنیاد ہے اطاعت، ایثار، قربانی، اور اللہ پر کامل یقین۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم آج کے دور میں اس عظیم جذبے کو سمجھ پاتے ہیں؟
کیا قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا نام ہے، یا پھر یہ ایک علامت ہے اس جذبے کی جو ہمیں خودغرضی، نفرت، تعصب، اور ظلم کی قربانی دے کر ایک صالح معاشرہ بنانے کی دعوت دیتی ہے.
عید قرباں ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اصل قربانی وہ ہے جو دل سے کی جائے۔ ہم اگر دوسروں کے لیے اپنے آرام، وقت، وسائل، یا جذبات کو قربان کر سکیں، تو یہی قربانی کی حقیقی روح ہے۔ آج جب معاشرہ تقسیم کا شکار ہے، جہاں خودغرضی، مادہ پرستی اور نفرت کا بول بالا ہے، وہاں عیدِ قرباں ہمیں محبت، یکجہتی اور بھائی چارے کا پیغام دیتی ہے۔
عید کے دن جب ہم نئے کپڑے پہنتے ہیں، خوشیاں مناتے ہیں اور لذیذ کھانوں سے دسترخوان سجاتے ہیں، تو ہمیں ان لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے جو کسی قربانی کا گوشت تو درکنار، ایک وقت کی روٹی کو بھی ترستے ہیں۔ اصل عید تو تب ہے جب آپ کی قربانی کا گوشت کسی غریب کے چہرے پر مسکراہٹ بن کر نمودار ہو۔
آئیے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ اس عید پر نہ صرف جانور کی قربانی دیں گے، بلکہ اپنی نفرتوں، تعصبات، انا، اور خودغرضی کو بھی قربان کریں گے۔ یہی عیدِ قرباں کا اصل پیغام ہے اور یہی پیغام ہمیں ایک بہتر انسان اور ایک بہتر امت بننے کی طرف لے جاتا ہے۔
عید مبارک!