یہ کہاوت بچپن سے سنتے آئے ہیں: "مصیبت میں کام آنے والا ہی سچا دوست ہوتا ہے۔” موجودہ عالمی صورتحال میں اس کہاوت کی عملی مثال پاکستان نے ایران کے حوالے سے پیش کی ہے۔ جہاں عالمی سطح پر دباؤ، سیاسی مصلحتیں اور دو طرفہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ موجود ہے، وہیں پاکستان نے جس جرأت، اصول پسندی اور اخلاص کے ساتھ ایران کا ساتھ دیا ہے، وہ نہایت قابلِ تحسین اور قابلِ فخر ہے۔
حالیہ بحران میں پاکستان کے اقوامِ متحدہ میں سفیر کا واضح، مضبوط اور جاندار بیان نہ صرف ایران کے لیے حمایت کا پیغام تھا، بلکہ ان تمام عناصر کے منہ پر طمانچہ بھی تھا جو ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان عالمی دباؤ، خاص طور پر امریکہ کے سامنے جھک جاتا ہے۔ اس بیان نے یہ ثابت کیا کہ پاکستان اپنے اصولوں پر قائم رہنے والا ملک ہے، جو برادر اسلامی ممالک کے ساتھ کھڑا ہونے کا حوصلہ اور اخلاقی جرأت رکھتا ہے۔
جب یہ بحران ختم ہوگا، تو تہران کو ضرور یہ غور کرنا ہوگا کہ مشکل وقت میں اس کے ساتھ کون کھڑا تھا؟ کون تھا جس نے وقتی مفاد اور عالمی دباؤ کو نظر انداز کرکے بھائی چارے اور اسلامی اخوت کو ترجیح دی؟ پاکستان کی یہ پالیسی، جو قربانی اور وفاداری پر مبنی ہے، صرف وقتی سفارتی چال نہیں بلکہ برسوں پر محیط برادرانہ تعلقات کی بنیاد ہے۔
اس سارے پس منظر میں اگر بھارت کی پوزیشن دیکھی جائے تو وہاں کھلے عام اسرائیلی حملوں پر خوشی منائی گئی۔ بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین کی بڑی تعداد نے ان حملوں کو سراہا، جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کبھی بھی ایران کا خیر خواہ نہیں رہا۔ ایران کو یہ کھلی حقیقت سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خطے میں اس کا اصل دوست کون ہے اور صرف بیانات یا تجارتی معاہدے حقیقی دوستی کا پیمانہ نہیں ہوتے۔
پاکستان کا کردار نہ صرف ایران بلکہ تمام مسلم ممالک کے لیے ایک مثال ہے۔ عالمی سیاست میں اصولوں پر قائم رہنا آسان نہیں ہوتا، خاص طور پر جب دنیا کی بڑی طاقتیں مخالف ہوں۔ مگر پاکستان نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ سچے دوست کا کردار نبھانا جانتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ایران اور دیگر ممالک ان مشکل لمحات میں دکھائی جانے والی وفاداری کو یاد رکھیں اور مستقبل کے فیصلوں میں ان جذبات کی قدر کریں۔