Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    بدھ, جولائی 23, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • 26نومبر احتجاج، وزیراعلیٰ گنڈاپور اور سابق صدر عارف علوی سمیت دیگر ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری
    • پاکستان اور بنگلادیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹس پر ویزا فری انٹری دینےکا فیصلہ
    • خیبرپختونخوا کی اپوزیشن جماعتوں کا حکومتی کُل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان
    • ترجیحات بدلیں گی یا تاریخ دہرائی جائے گی؟
    • زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ
    • ملک بھر میں بارشوں کی تباہ کاریاں جاری،جاں بحق افراد کی تعداد 245 ہو گئیں، اب تک ہونے والے نقصانات کی رپورٹ جاری
    • سوات میں تشدد سے جاں بحق بچے کا معاملہ، استاد سمیت دو ملزمان گرفتار ، مدرسہ سیل
    • بابوسر سیلابی ریلے میں لاپتہ ہونے والے 15 افراد کی تلاش جاری، سیاحوں سے گلگت کا سفر مؤخر کرنے کی اپیل
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » مدارس کا المیہ اور مستقبل کی کڑی ذمہ داری
    بلاگ

    مدارس کا المیہ اور مستقبل کی کڑی ذمہ داری

    جولائی 22, 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔6 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    The tragedy of madrasahs and their responsibility for the future
    ہر سال ہر ضلعے میں ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں مگر ان کے پاس دینی نصاب کے علاوہ کوئی ہنر نہیں ہوتا ۔
    Share
    Facebook Twitter Email

    پاکستان میں مدارس کا نظام ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے مگر ہم نے اسے نظرانداز کر رکھا ہے ۔ ملک بھر میں مدارس کی اصل تعداد کسی کو معلوم نہیں ۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ تیس ہزار رجسٹرڈ ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ ساٹھ ہزار سے بھی زیادہ ہیں ۔ یہ وہ ادارے ہیں جو لاکھوں بچوں کو تعلیم دیتے ہیں، مگر جب اندر جھانکا جائے تو سوالات کی ایک پوری دنیا سامنے آ جاتی ہے جنہیں ہم دہائیوں سے دبائے بیٹھے ہیں ۔

    آج پاکستان میں جس کی مرضی ہو، وہ گھر کے کسی کمرے میں مدرسہ قائم کر لیتا ہے ۔ نہ کوئی ضابطہ، نہ کوئی معیار، نہ زمین کے لیے کوئی شرط، نہ کھیل کے میدان کا تقاضا ۔ یہ بے ضابطگی اس لیے برقرار ہے کہ ریاست مذہبی قوتوں کے دباؤ سے خوفزدہ ہے اور قانون سازی کرنے سے ڈرتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ مدارس ایک متوازی نظام کی صورت میں بغیر کسی نگرانی کے چل رہے ہیں، اور یہ نظام خاموشی سے سماج کی جڑوں میں پھیل چکا ہے ۔

    یہ صرف تعداد کا مسئلہ نہیں بلکہ مستقبل کا سوال ہے ۔ ہر سال ہر ضلعے میں ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں مگر ان کے پاس دینی نصاب کے علاوہ کوئی ہنر نہیں ہوتا ۔ وہ جدید دنیا کے تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ یہ خلا انہیں اسی محدود دائرے میں قید کر دیتا ہے ۔ کوئی زمین وقف کرا لیتا ہے، کچھ چندہ اکٹھا کرتا ہے، نیچے مدرسہ اوپر گھر بن جاتا ہے اور یوں ایک اور غیر معیاری ادارہ کھل جاتا ہے ۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں ۔

    اساتذہ کے معاملے میں بھی کوئی واضح معیار نہیں ۔ آج بھی بیشتر مدارس میں جس شخص کو چاہا، محض چندہ اکٹھا کرنے کی صلاحیت یا کسی خاص مسلک سے قربت کی بنیاد پر مدرس لگا دیا جاتا ہے ۔ کوئی ٹریننگ نہیں، کوئی تدریسی اصول نہیں ۔ اساتذہ کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ وہ خود غربت کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں ۔ تدریس ان کے لیے مشن کے بجائے محض گزارے کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے ۔

    مدارس کے اندر کا ماحول بھی بیشتر جگہوں پر غیر انسانی ہے ۔ طلبا کا کھانا پینا مناسب نہیں، رہائش گاہیں تنگ و تاریک ہیں، کلاس رومز میں روشنی اور ہوا کا انتظام بھی کمزور ہوتا ہے ۔ گھٹن زدہ ماحول میں تخلیقی سوچ پنپ نہیں سکتی ۔ جسمانی سزا اب بھی عام ہے ۔ بچوں کے ذہن میں جو سوالات جنم لیتے ہیں، انہیں پوچھنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ اگر پوچھیں تو انہیں ڈانٹ پڑتی ہے یا مار پڑتی ہے ۔ نتیجہ یہ کہ وہ سوالات دب جاتے ہیں اور ذہنی جمود پیدا ہو جاتا ہے ۔

    تربیت میں ایک خطرناک یک رنگی ہے ۔ ان مدارس میں بچے دنیاوی علوم سے دور رکھے جاتے ہیں ۔ ان کے نصاب میں نہ جدید سائنس ہے، نہ ریاضی، نہ سوشل سائنسز ۔ کوئی فنی تعلیم نہیں، کوئی کمپیوٹر یا ٹیکنالوجی کی تربیت نہیں ۔ نہ کھیلوں کا کوئی میدان ہے، نہ نصابی سرگرمیاں ۔ بچے صرف رٹنے والے ذہن کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اور ایک ایسے معاشرے میں قدم رکھتے ہیں جو بدل رہا ہے، ترقی کر رہا ہے، مگر وہ اس میں فٹ نہیں بیٹھ پاتے ۔

    یہ صورتحال صرف تعلیمی پسماندگی نہیں بلکہ سماجی مسائل کو جنم دینے والا ایک دھماکہ خیز مواد ہے ۔ ایک ایسا طبقہ پیدا ہو رہا ہے جو نہ مکمل دینی عالم ہے نہ جدید دور کا شہری ۔ ان کے پاس معیشت کے لیے کوئی راستہ نہیں، سوائے اس کے کہ وہی چکر دہرایا جائے: پھر ایک مدرسہ کھولو، پھر چندہ لو، پھر مزید بچے پیدا کرو جو اسی چکر میں پلیں ۔ یہ سب کچھ صرف فرد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا نقصان ہے ۔

    ریاست اگر واقعی مستقبل سنوارنا چاہتی ہے تو مدارس کو سکولوں کے قوانین کے دائرے میں لانا ہوگا ۔ مدرسہ قائم کرنے کے لیے باقاعدہ زمین کا رقبہ، بڑی اور محفوظ عمارت، کھیل کے میدان، لیبارٹریز اور لائبریریاں لازمی قرار دی جائیں ۔ اساتذہ کے لیے سخت معیار ہوں، انہیں جدید تدریسی تربیت دی جائے اور ان کی تنخواہیں اتنی ہوں کہ وہ باوقار زندگی گزار سکیں ۔ طلبا کے لیے معیاری کھانا، مناسب رہائش، اور کھلی فضا میں کھیلنے کے مواقع فراہم کیے جائیں ۔

    مدارس کے نصاب میں جدید سائنس، ریاضی، کمپیوٹر اور سماجی علوم کو شامل کرنا ضروری ہے ۔ انہیں فنی تربیت دی جائے تاکہ فارغ ہونے کے بعد وہ معاشی طور پر خود مختار ہو سکیں ۔ اس طرح یہ بچے صرف درس دینے والے نہیں بلکہ ایک وسیع علم اور ہنر رکھنے والے شہری بن سکیں گے ۔

    فنڈنگ کے نظام کو شفاف بنانا لازمی ہے ۔ افراد سے لیے جانے والے چندوں پر پابندی لگائی جائے اور ہر مدرسے کے مالی معاملات کا سالانہ آڈٹ ہو ۔ حکومت کے ماتحت ایک آزاد مانیٹرنگ باڈی ہو جو ہر سال مدارس کے نصاب، اساتذہ کی کارکردگی، اور مالی شفافیت پر رپورٹ جاری کرے ۔

    طلبا کی نفسیاتی اور فکری تربیت پر توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے ۔ ان کے سوالات کو دبانے کے بجائے ان کے جوابات تلاش کرنے کا ماحول پیدا کیا جائے ۔ مختلف مسالک کے علما کو ایک ساتھ بٹھا کر مشترکہ ورکشاپس اور علمی نشستیں رکھی جائیں تاکہ طلبا کے ذہن میں وسعت پیدا ہو اور وہ اختلافِ رائے کو برداشت کرنا سیکھیں ۔ انہیں فنونِ لطیفہ، کھیلوں اور معاشرتی سرگرمیوں سے جوڑا جائے تاکہ ان کی شخصیت میں توازن اور ہم آہنگی پیدا ہو ۔

    یہ سب کچھ کسی مذہب دشمنی کے لیے نہیں بلکہ اسی دین کی تعلیم کو محفوظ اور معیاری بنانے کے لیے ہے ۔ مدارس کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کیے بغیر ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو سماج سے کٹی ہوئی ہے، جو سوال کرنے سے ڈرتی ہے، جو خواب دیکھنے سے محروم ہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ بچے مستقبل کے روشن فکر علما، محققین، استاد اور معاشرے کے کارآمد شہری بنیں تو ہمیں مدارس کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا ۔ یہ صرف ایک تعلیمی اصلاح نہیں بلکہ ایک قومی بقا کا سوال ہے ۔

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleجلاؤ گھیراؤ کیس میں شاہ محمود بری، ڈاکٹر یاسمین، میاں محمود، سرفراز چیمہ، اعجاز چودھری کو 10، 10 سال قید کی سزا
    Next Article بابوسر سیلابی ریلے میں لاپتہ ہونے والے 15 افراد کی تلاش جاری، سیاحوں سے گلگت کا سفر مؤخر کرنے کی اپیل
    Khalid Khan
    • Website

    Related Posts

    ترجیحات بدلیں گی یا تاریخ دہرائی جائے گی؟

    جولائی 23, 2025

    دہشت گردوں کی ڈرون حملوں میں اضافہ کیوں۔۔؟

    جولائی 22, 2025

    زبردستی کا پاکستان

    جولائی 21, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    26نومبر احتجاج، وزیراعلیٰ گنڈاپور اور سابق صدر عارف علوی سمیت دیگر ملزمان کے وارنٹ گرفتاری جاری

    جولائی 23, 2025

    پاکستان اور بنگلادیش کا سفارتی و سرکاری پاسپورٹس پر ویزا فری انٹری دینےکا فیصلہ

    جولائی 23, 2025

    خیبرپختونخوا کی اپوزیشن جماعتوں کا حکومتی کُل جماعتی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان

    جولائی 23, 2025

    ترجیحات بدلیں گی یا تاریخ دہرائی جائے گی؟

    جولائی 23, 2025

    زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ

    جولائی 23, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.