پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر: ۔
تقریباً ساٹھ سال پہلے پاکستان میں دکانوں کے باہر ٹھنڈے مشروبات رکھنے کے لیے بڑے بڑے ٹرنک رکھے جانے لگے ۔ پیپسی اور کوکا کولا جیسی کمپنیاں یہ ٹرنک دکانداروں کو مفت دیتی تھیں ۔ ان میں برف ڈالی جاتی، بوتلیں چمکتی ہوئی قطاروں میں سجی ہوتیں، اور یہ مشروب صرف ایک لذت نہیں بلکہ عیاشی اور سماجی رتبے کی علامت سمجھے جاتے ۔ مہمان آتے تو بچے دوڑ کر ٹھنڈی بوتل لاتے، اور یوں یہ کلچر خوشی اور وقار کا حصہ بن گیا ۔ مگر اس چمکدار شروعات کے پیچھے ایک خاموش کاروباری منصوبہ چھپا تھا، جس کا خمیازہ آج کروڑوں پاکستانی بھگت رہے ہیں ۔
عالمی ادارہ برائے ذیابیطس کے مطابق آج پاکستان میں بالغ آبادی کا تقریباً 31 فیصد حصہ ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے، یعنی ساڑھے تین کروڑ سے زائد لوگ، اور یہ تعداد ہر سال تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ اندازہ ہے کہ 2050 تک یہ تعداد 7 کروڑ کے قریب پہنچ سکتی ہے ۔ مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ تقریباً 2 کروڑ پاکستانی ایسے ہیں جنہیں علم ہی نہیں کہ وہ اس بیماری کا شکار ہیں، جب تک پیچیدگیاں سامنے نہ آ جائیں ۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کو دنیا میں ذیابیطس کی شرح کے اعتبار سے پہلے نمبر پر لے آئے ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں ذیابیطس پر براہِ راست اور بالواسطہ معاشی بوجھ کا تخمینہ 7 ارب امریکی ڈالر سالانہ لگایا جا رہا ہے، جو ہمارے قومی ہیلتھ بجٹ کا بڑا حصہ کھا رہا ہے ۔
یہ سب محض اتفاق نہیں ۔ پچھلی نصف صدی میں خوراک کی عادات بدلنے کے لیے ایک منظم حکمت عملی اپنائی گئی ۔ زیادہ شکر والے مشروبات، پراسیسڈ کھانے، اور چکنائی سے بھرے سنیکس عام کیے گئے ۔ مارکیٹنگ نے انہیں خوشی، جوانی اور کامیابی کی علامت بنا دیا ۔ جب لوگ آہستہ آہستہ بیمار ہونے لگے تو وہی ملٹی نیشنل کمپنیاں، جو مٹھاس بیچ کر مرض پھیلاتی تھیں، دوا ساز اداروں کے ساتھ مل کر انسولین، دوائیں اور علاج بیچنے لگیں ۔ یہ ایک ایسا بندوبست ہے جس میں بیماری ایک مستقل کاروبار بن جاتی ہے، پہلے مرض پیدا کرو، پھر علاج بیچو ۔
یہ حکمت عملی صرف پاکستان میں نہیں اپنائی گئی ۔ میکسیکو میں 1980 کی دہائی میں سافٹ ڈرنکس کے فروغ کے بعد ذیابیطس کی شرح دوگنی ہو گئی ۔ امریکا میں 1960 سے 2020 کے درمیان فی کس چینی کی کھپت میں 300 فیصد اضافہ ہوا اور آج وہاں ذیابیطس پر سالانہ 327 ارب ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں ۔ بھارت میں فاسٹ فوڈ اور میٹھے مشروبات کی یلغار نے گزشتہ 25 برسوں میں ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد چار گنا بڑھا دی ۔
ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوڈ اینڈ ڈرگ مافیا کی یہ حکمت عملی ایک بین الاقوامی نیٹ ورک کے تحت چلتی ہے، جہاں فوڈ کمپنیاں صحت مند خوراک کے بجائے زیادہ منافع والی خوراک بیچتی ہیں، اور فارما انڈسٹری انہی بیماریوں کو ساری زندگی کا مستقل گاہک بنا لیتی ہے ۔
ہماری موجودہ نسل اس جال میں بری طرح پھنس چکی ہے ۔ ہر سال ذیابیطس سے جڑی پیچیدگیوں کے باعث پاکستان میں دو لاکھ سے زائد لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔ یہ صرف ایک صحت کا بحران نہیں بلکہ معاشی اور سماجی المیہ ہے ۔ علاج کا خرچ، روزگار کا نقصان، اور خاندان پر پڑنے والا نفسیاتی دباؤ، یہ سب ہمارے اجتماعی مستقبل کو کمزور کر رہے ہیں ۔ اس وقت پاکستان میں فی کس شکر کی کھپت تقریباً 24 کلوگرام سالانہ ہے، جو عالمی صحت تنظیم کے تجویز کردہ معیار سے دو گنا زیادہ ہے ۔
لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہم راستہ بدل سکیں ۔ ہمیں اپنی غذا میں شکر کی مقدار کم کرنی ہوگی، قدرتی اور مقامی خوراک کو اپنانا ہوگا، اور جسمانی سرگرمی کو زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوگا ۔ یہ تبدیلی صرف ذاتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک تحفہ ہوگی ۔ کیونکہ اگر آج ہم نے کچھ نہ کیا تو کل ہمارے بچے بھی انہی بوتلوں کی چمک اور انہی بیماریوں کے اندھیرے میں پلیں گے ۔
پاکستان میں ہیلتھ پالیسی کی ناکامی اور شوگر ٹیکس کی ضرورت: ۔
پاکستان کی موجودہ ہیلتھ پالیسی ذیابیطس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے بحران کو روکنے میں مؤثر ثابت نہیں ہو رہی ۔ ملک میں نہ تو شکر والے مشروبات پر بھرپور آگاہی مہمات چلائی جا رہی ہیں اور نہ ہی ان کی فروخت کو محدود کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے ہیں ۔ دنیا کے کئی ممالک ، جیسے میکسیکو، سعودی عرب، اور برطانیہ، نے شوگر ٹیکس نافذ کر کے شکر والے مشروبات کی کھپت میں نمایاں کمی کی ہے ۔ میکسیکو میں اس ٹیکس کے بعد پہلے ہی سال میں فروخت 12 فیصد کم ہو گئی ۔
پاکستان میں بھی اگر فی لیٹر کم از کم 20 سے 25 روپے کا شوگر ٹیکس لگایا جائے، اور اس آمدنی کو صحت عامہ کے منصوبوں پر خرچ کیا جائے، تو اس کے نتیجے میں نہ صرف کھپت کم ہوگی بلکہ حکومت کو اضافی آمدنی بھی حاصل ہوگی ۔ اس کے ساتھ ساتھ سکولوں اور عوامی مقامات پر میٹھے مشروبات کی فروخت پر پابندی، اور بچوں کے لیے صرف صحت مند خوراک کی دستیابی کو یقینی بنانا، پالیسی کا لازمی حصہ ہونا چاہیے ۔
یہ اقدامات وقتی طور پر سخت یا غیر مقبول لگ سکتے ہیں، مگر ان کے بغیر پاکستان آنے والے برسوں میں ذیابیطس کے عالمی دارالحکومت کے طور پر بدنام ہو سکتا ہے ۔ یہ صرف عوامی صحت نہیں بلکہ قومی معیشت اور بقا کا سوال ہے ۔