وفاقی حکومت جب بھی افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا اعلان کرتی ہے، کچھ پاکستانی سیاستدان شور مچانا شروع کر دیتے ہیں اور افغانوں کی واپسی کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت، بالخصوص علی امین گنڈاپور، افغان مہاجرین کے دفاع میں سامنے آ جاتے ہیں۔
وفاقی حکومت بار بار کہہ رہی ہے کہ 31 اگست کے بعد رجسٹرڈ افغان شہری بھی پاکستان میں نہیں رہ سکیں گے۔ نادرا رجسٹریشن بند کر دے گا، ایف آئی اے بارڈر پر سہولت دے گا اور فارن نیشنل سیکیورٹی ڈیش بورڈ ان کی واپسی پر کڑی نظر رکھے گا۔ یہ ایک واضح اور دو ٹوک پالیسی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر کچھ سیاستدان اور خیبرپختونخوا کی حکومت کیوں ہر بار ان افغان مہاجرین کے دفاع میں ڈٹ جاتے ہیں؟
کیا یہ محض انسانی ہمدردی ہے یا پھر "ہمدردی کے لبادے میں لپٹا سیاسی مفاد”؟
افغان مہاجرین پچھلے چالیس برس سے پاکستان میں ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد نے کاروبار کھڑے کیے، مارکیٹیں سنبھال لیں اور ٹرانسپورٹ و تجارت میں جڑیں مضبوط کر لیں۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ مقامی سیاستدان کیوں ان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں؟
سیدھی سی بات ہے: یہ ہمدردی نہیں، بلکہ کاروباری اور سیاسی مجبوری ہے۔ جن سیاستدانوں کے مفادات افغان مہاجرین کے ساتھ جڑے ہیں، وہ کبھی بھی ان کی جبری واپسی کی حمایت نہیں کریں گے۔ ان مہاجرین کی موجودگی سے ان کے کاروبار چلتے ہیں، تجارتی تعلقات پروان چڑھتے ہیں اور بلیک مارکیٹ سے منافع نکلتا ہے۔
اگرچہ افغان مہاجرین قانونی طور پر ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں ہیں، مگر وہ مقامی برادریوں کے ساتھ اس قدر گھل مل گئے ہیں کہ کئی سیاسی حلقوں میں "خاموش ووٹ بینک” بن گئے ہیں۔ سیاستدان جانتے ہیں کہ یہ لاکھوں لوگ اپنے رشتہ داروں، تعلق داروں اور مقامی برادریوں کو متاثر کرتے ہیں۔ ایسے میں کون سا سیاستدان یہ "اثرورسوخ” کھونا چاہے گا؟ چنانچہ افغان مہاجرین کی موجودگی کو وہ اپنے سیاسی مستقبل کے لیے "سرمایہ” سمجھتے ہیں۔
یہ سب جانتے ہیں کہ دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں افغان شناخت استعمال کی گئی۔ منشیات اور اسمگلنگ کے نیٹ ورک میں افغان مہاجرین کی شمولیت کے ثبوت موجود ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان سیاستدانوں کو ان حقائق سے زیادہ اپنے مفادات عزیز ہیں۔ وہ ایسے بات کرتے ہیں جیسے افغان مہاجرین یہاں کے "آبائی باسی” ہوں اور ان کی واپسی کوئی ظلمِ عظیم ہو۔
اب آتے ہیں خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کی جانب، جو ہمیشہ افغان مہاجرین کے حق میں سب سے زیادہ بولتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ وہاں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور پی ٹی آئی نے وفاق کی ہر پالیسی کی مخالفت کو اپنی سیاسی حکمتِ عملی بنا رکھا ہے۔ چاہے بجٹ ہو، امن و امان کی پالیسی ہو یا افغان مہاجرین کی واپسی، خیبرپختونخوا حکومت ہمیشہ "وفاق مخالف بیانیہ” اپناتی ہے۔ گویا ان کے نزدیک اصل مسئلہ افغان مہاجرین نہیں بلکہ وفاقی حکومت کو نیچا دکھانا ہے۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے ہر پرتشدد احتجاج میں افغان مہاجرین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور پاکستانی عوام کے مفادات کو شدید نقصان پہنچایا۔
یہ طرزِ سیاست عوام کو یہ پیغام دینے کی کوشش ہے کہ "وفاق صوبے کی تکالیف نہیں سمجھتا”۔ لیکن اصل میں یہ ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے جس کا خمیازہ پاکستان کو سیکیورٹی اور معاشی مسائل کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔
انسانی ہمدردی ایک اچھی چیز ہے، مگر سیاست میں اس کا استعمال اکثر ڈھونگ بن جاتا ہے۔ افغان مہاجرین کے ساتھ ہمدردی کی آڑ میں دراصل وہ قوتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں جو ان کی موجودگی کو کاروباری اور سیاسی سرمایہ کاری سمجھتی ہیں۔ اگر انسانی ہمدردی واقعی مقصد ہے تو سوال یہ ہے کہ پھر افغان مہاجرین کو پاکستان کے مسائل میں شامل کرنے کے بجائے انہیں اپنے وطن واپس بھیجنے میں کیا برائی ہے؟ کیا ایک آزاد اور خودمختار افغانستان میں رہنا زیادہ معقول نہیں؟
پاکستان اب ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی ملک کی سیکیورٹی اور معیشت کے لیے ضروری ہے۔ لیکن اگر سیاستدان اور صوبائی حکومتیں اپنے وقتی فائدوں کے لیے اس عمل میں رکاوٹ ڈالیں گی تو یہ رویہ قومی مفاد کے خلاف ہوگا۔
یہ وقت "ووٹ بینک” اور "کاروباری مفادات” کو بھول کر پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو ترجیح دینے کا ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کو مزید مؤخر کرنا دراصل مسائل کو آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑنے کے مترادف ہوگا۔