افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کو کئی سال گزر چکے ہیں، مگر اب بھی وہاں کی خواتین ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکلات اور پابندیوں کی زد میں آتی جا رہی ہیں۔ تعلیم، ملازمت، سفر اور اب خوبصورتی سے جڑے شعبے تک—ہر شعبے میں خواتین کے لیے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان نے گھروں میں قائم بیوٹی پارلرز کو بھی بند کرانا شروع کر دیا ہے، جو ایک اور پریشان کن قدم ہے جو خواتین کو مکمل طور پر معاشی و سماجی طور پر مفلوج کرنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔
افغان میڈیا کے مطابق طالبان نے گھروں میں قائم درجنوں بیوٹی سیلونز پر چھاپے مارے، ان کا سامان ضبط کیا اور خواتین بیوٹیشنز کو کام نہ کرنے کے معاہدوں پر مجبور کیا۔ بعض واقعات میں ان کے موبائل فونز کی بھی تلاشی لی گئی اور آئندہ دوبارہ کام کرنے کی صورت میں گرفتاری و عدالتی کاروائی کی دھمکیاں دی گئیں۔
یہ وہی بیوٹی پارلرز تھے جو طالبان کے گزشتہ سال کے مکمل بندش کے فیصلے کے بعد چھپ چھپ کر گھروں میں محدود پیمانے پر خدمات فراہم کر رہے تھے۔ ان پارلرز سے نہ صرف خواتین کو باعزت روزگار میسر آتا تھا بلکہ وہ اپنے گھروں کی معیشت میں بھی کردار ادا کرتی تھیں۔
بیوٹی پارلرز پر پابندی صرف ایک مثال ہے۔ طالبان حکومت نے خواتین پر سرکاری اور بیشتر نجی اداروں میں کام کرنے پر پہلے ہی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ بین الاقوامی این جی اوز، تعلیمی اداروں، اور حتیٰ کہ ہیلتھ کیئر جیسے اہم شعبوں سے بھی خواتین کو باہر نکالا جا چکا ہے۔ اس طرح لاکھوں خواتین نہ صرف معاشی بدحالی کا شکار ہو چکی ہیں بلکہ وہ خودمختاری اور انسانی وقار سے بھی محروم ہو گئی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی لڑکیوں کی تعلیم پر بھی سخت پابندیاں جاری ہیں۔ چھٹی جماعت کے بعد لڑکیوں کی اسکولوں میں تعلیم بند کر دی گئی ہے، اور یونیورسٹیوں میں داخلہ بھی ممنوع قرار دیا جا چکا ہے۔ علم جیسا بنیادی انسانی حق، جو اقوامِ متحدہ اور اسلام دونوں میں لازمی قرار دیا گیا ہے، افغان خواتین کے لیے خواب بنتا جا رہا ہے۔
طالبان حکومت کے تحت خواتین کو بغیر محرم کے سفر کرنے کی اجازت نہیں، چاہے وہ سفر مختصر ہو یا طویل۔ اس کے علاوہ کئی شہروں میں خواتین کو پارکوں، جمز، اور دیگر عوامی مقامات تک رسائی سے بھی روک دیا گیا ہے۔ گویا خواتین کو ان کے ہی گھروں میں قید کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
یہ تمام اقدامات مذہب کے نام پر کیے جا رہے ہیں، مگر درحقیقت نہ تو اسلام نے کبھی خواتین کی تعلیم یا روزگار پر پابندی لگائی ہے، نہ ہی انہیں سماجی زندگی سے الگ تھلگ کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہ پالیسیاں نہ صرف شریعت کے خلاف ہیں بلکہ افغان خواتین کی آئینی، انسانی اور فطری حقوق کی بھی صریحاً خلاف ورزی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے اب تک صرف زبانی مذمت ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ دنیا کی بڑی طاقتیں، جو انسانی حقوق کے چیمپیئن بننے کا دعویٰ کرتی ہیں، اس ظلم پر محض تشویش کا اظہار کرتی ہیں۔ اگر افغان خواتین کے ساتھ ہونے والی یہ ناانصافیاں دنیا کے کسی اور خطے میں ہوتیں، تو شاید اب تک کئی معاشی و سیاسی اقدامات ہو چکے ہوتے۔
افغانستان کی خواتین اس وقت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہیں۔ ان پر تعلیم، ملازمت، اظہار، اور یہاں تک کہ ذاتی زندگی تک محدود کرنے کے لیے ظلم کی نئی شکلیں سامنے آ رہی ہیں۔ طالبان حکومت کا یہ طرزِ عمل نہ صرف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ افغانستان کے مستقبل کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا نہ صرف زبانی مذمت کرے بلکہ عملی اقدامات بھی کرے تاکہ افغان خواتین دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ سکیں—ایک ایسی زندگی جس میں ان کے خواب، ان کی خودمختاری، اور ان کا وقار محفوظ ہو۔