پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر: ۔
آج میں ایک ایسی شخصیت پر لکھ رہا ہوں جس کا میں مقروض ہوں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میں ان پر بہت پہلے، بہت کچھ لکھ چکا ہوتا کیونکہ یہ ان کا حق تھا۔ بشیر خان عمرزئی انسانوں کے اس قبیلے کا نمائندہ ہے جو خود تقدیر لکھتا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے انہی جیسے شخصیتوں کے بارے میں فرمایا تھا:
> خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ خوددار انسان ذاتی اور جذباتی زندگی میں بہت دکھی اور مظلوم واقع ہوا ہے۔ ان کے والد محترم بصیر خان کی بعد از رخصت ان کی پیدائش ہوئی۔ نہ کوئی بھائی، نہ بہن اور نہ ہی والد کا سایہ۔ اوپر سے بہت سارے طاقتور لوگ اس معصوم بچے کو ہڑپ کرنا چاہتے تھے۔ مگر وہی بات کہ "جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے” کے مصداق، اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں ایک شیرنی ماں سے نوازا۔ اس عظیم پشتون ماں نے ہر رشتہ بن کر بشیر خان عمرزئی کو پال پوس کر بڑا کیا۔ ان کی ماں اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ انسان تھی اور انہیں زندگی کے ہر دکھ کے بدلے بشیر خان عمرزئی کی شکل میں سکھ دیا ۔
بشیر خان عمرزئی، جنہیں آگے میں بشیر خان لالا لکھوں گا، کے بارے میں میری یادداشت اس تاریخی دن سے شروع ہوتی ہے جس دن وہ عوامی نیشنل پارٹی میں شامل ہو رہے تھے۔ بشیر خان لالا کے آبائی حجرے میں ایک بہت بڑا جلسہ عام منعقد ہوا جس کو مور بی بی، بیگم نسیم ولی خان نے خطاب کیا اور بشیر خان لالا باضابطہ طور پر ولی باغ کے ہراول دستے میں شامل ہوگئے۔ میں اپنے دادا خدائی خدمتگار عبدالمالک خان المعروف نواب صاحب کے ساتھ جلسے میں شرکت کرنے گیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے کی تحریک زوروں پر تھی اور الیکشن سر پر کھڑا تھا ۔
بشیر خان لالا کو صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا جن کے مدمقابل خان بہادر سعداللہ خان کے صاحبزادے اکرم خان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے تھے۔ اس زمانے میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات بجائے ایک ساتھ، دو مختلف دنوں میں منعقد ہوتے تھے۔ پہلے قومی اسمبلی کے انتخابات ہوتے اور اگلے دن صوبائی اسمبلیوں کے۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی بنیاد پر پاکستان قومی اتحاد نے صوبائی اسمبلیوں کے لیے ہونے والے انتخابات سے بائیکاٹ کیا ۔
بشیر خان لالا کی سیاست میں باقاعدہ آمد سے پہلے وہ اپنی زمینوں پر کاشت کاری کرتے تھے اور ان دنوں ورجینیا تمباکو کیش کراپ ہوا کرتا تھا۔ بشیر لالا بہت اچھے زمیندار تھے اور تمباکو کی کاشت میں جدت کے حوالے سے مشہور تھے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی کا ڈپو واقع عمرزئی تمباکو خرید کا سب سے بڑا علاقائی مرکز تھا۔ کمپنی کاشتکاروں کا استحصال کرتی تھی جس کی وجہ سے کاشتکاروں میں حد سے زیادہ بےچینی تھی۔ بشیر لالا نے مرد آہن بن کر کاشتکاروں کی نمائندگی کی اور کمپنی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بشیر خان لالا میں چھپا ہوا فطری لیڈر سامنے آیا اور اپنی قائدانہ صلاحیتیں علاقے میں منوائیں ۔
عمرزئی کی تاریخ میں یہ ایک تاریک دور تھا۔ فلموں کی طرح عمرزئی پر غنڈوں کا راج تھا۔ ہر شریف شخص کی عزت داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ عمرزئی کے دکاندار دن میں تین تین مرتبہ بےعزت ہو کر، مار کھا کر اور گالیاں سن کر خوانین اور غنڈوں کو ٹیکس دیتے تھے۔ شرفاء کا جینا محال تھا۔ ایسے میں یہ مرد آہن، فرزندِ شیر، بشیر خان عمرزئی بازار میں نکل آئے اور ایک بہت بڑا ہنگامی جلسہ منعقد کیا۔ غنڈوں کو للکارا، دکانداروں کو حوصلہ دیا اور اسی لمحے سے عمرزئی میں غنڈہ راج کا خاتمہ کیا ۔
لالا ایک مڈل کلاس شریف آدمی تھا۔ نہ اس کے ساتھ کوئی لشکر تھا اور نہ ہی کوئی خفیہ سپورٹ۔ دو طاقتیں اسے حاصل تھیں: سینے میں ایک شیر دل اور سر پر ماں کی دعاؤں کا سایہ۔ بشیر خان لالا اپنی ہمت، جرأت، استقامت اور بہادری کی وجہ سے راتوں رات آنکھوں کا تارا اور دلوں کا شہزادہ بن گیا۔ لالا بغیر راجدھانی کے عوامی راجہ بن گیا ۔
لالا کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں۔ سیاسی میدان میں ہارنے کے بعد مخالف خوانین اور سماج دشمن عناصر لالا کے خلاف متحد ہوگئے۔ لالا خونی رشتوں کے حوالے سے تب بھی تنہا تھا۔ ان کے بچے شیر خوار تھے اور بعض کی تو ابھی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ لالا ہر محاذ پر بہادروں کی طرح لڑا اور جیتا۔ انہوں نے اس عوامی اور قومی جنگ میں اپنے بہت سارے پیاروں کو بھی کھویا، قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، مالی نقصانات بھی اٹھائے، خاندانی زندگی بھی متاثر ہوئی اور ان کے بچے بندوقوں کے سائے میں بڑے ہوتے چلے گئے ۔
بشیر خان لالا، ان کے صاحبزادے شکیل بشیر خان عمرزئی، خلیل بشیر خان عمرزئی، افضل بشیر خان عمرزئی اور منصور بشیر خان عمرزئی آج تک کسی بھی عدالت سے سزا یافتہ نہیں ہیں۔ ان پر مختلف اوقات میں مختلف خطرناک دعوے داریاں ہوئیں، مگر سپریم کورٹ تک وہ باعزت بری ہوتے رہے۔ ان کے رشتہ داروں، دوستوں اور پارٹی کے ساتھیوں کے ساتھ بھی یہی مظالم ہوتے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ سرخرو کیا ۔
بشیر خان عمرزئی، ان کے صاحبزادوں اور ان کے ساتھیوں پر آج تک کوئی یہ ثابت نہیں کر سکا کہ وہ کسی بھی جرم میں ملوث رہے ہیں، جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کی ہے، اینٹی سوشل ایکٹیویٹیز میں رہے ہیں، کسی پر ظلم کیا ہے، کسی کی عزت اچھالی ہے یا کوئی بھی ایسا کام کیا ہے جو پشتون اور اسلامی روایات کے خلاف ہو۔ وہ ہر کسی کو عزت دیتے ہیں، ہر کسی کی مدد کرتے ہیں، ہر کسی کے غم و خوشی میں شریک ہوتے ہیں اور بلا تفریق علاقے کی خدمت کرتے ہیں۔ میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ ہمیشہ سلام دعا میں وہ پہل کرتے ہیں اور میرے جیسے لوگوں کی بھی حسرت رہتی ہے کہ سلام میں پہل کروں ۔
سیاست میں لوگ مال کماتے ہیں، انہوں نے خرچ کیا۔ آج تک وزارتوں اور نظامتوں میں رہنے کے باوجود ان پر ایک روپے کی بدعنوانی اور کرپشن کا کوئی کیس نہیں ہے۔ کیا خیال ہے، اگر یہ خاندان کرپٹ ہوتا تو ان کے مخالفین اور مخالف سیاسی حکومتیں ان کو یوں معاف کرتیں؟
جہاں تک ذاتی کردار کی بات ہے تو بشیر خان لالا سے لے کر ان کے صاحبزادوں تک سب اعلیٰ اخلاق، کردار اور اوصاف کے مالک ہیں۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ ان کے اخلاقی معیار پر کوئی انگلی اٹھا کر دکھائے ۔
چلتے چلتے ان پر لگنے والے قبضہ مافیا کے الزامات کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔ یتیم بشیر خان لالا نے طاقت کے باوجود اگر سالوں سے قابض لوگوں سے اپنی آبائی جائیداد پرامن اور قانونی طریقے سے واپس لی تو کیا یہ قبضہ گیری ہے؟ اگر ان کے صاحبزادے افضل بشیر خان عمرزئی پراپرٹی کے کاروبار میں ہیں تو کیا یہ جرم ہے؟
میں چیلنج کرتا ہوں کہ کوئی ایک کیس بھی ایسا ثابت کیا جائے کہ جہاں بندوق کے ذریعے پرائی ایک انچ جائیداد پر بھی اس خاندان نے قبضہ کیا ہو۔ میں چیلنج کرتا ہوں کہ پاکستان بھر میں ان کے خلاف قبضہ گیری کا کوئی ایک ایف آئی آر بھی مجھے کوئی دکھائے ۔
بشیر خان عمرزئی اور ان کا مظلوم خاندان صرف اور صرف قومی خدمت، شرافت اور پشتون سیاست کی سزا بھگت رہے ہیں ۔