پاکستان میں صحت کے شعبے کو بہتری کی جانب لے جانے کا خواب ایک بار پھر خاک میں ملتا نظر آ رہا ہے۔ خیبرپختونخوا کی محکمہ صحت کی تازہ آڈٹ رپورٹ نے جو حقائق سامنے رکھے ہیں، وہ نہ صرف چونکا دینے والے ہیں بلکہ ایک بڑے پیمانے پر منظم کرپشن کی نشاندہی بھی کرتے ہیں۔
2018 سے 2021 کے دوران چلنے والے "صحت انصاف کارڈ” پروگرام میں 28 ارب 61 کروڑ روپے کی مالی بے ضابطگیاں رپورٹ ہوئی ہیں۔ جی ہاں! 28 ارب سے زائد کی وہ رقم، جو اس قوم کے غریب عوام کے علاج معالجے پر خرچ ہونی تھی، وہ یا تو بے مقصد منصوبوں میں بہا دی گئی یا نجی اسپتالوں کے ذریعے کسی اور کی جیب میں چلی گئی۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق صحت کارڈ پینل میں وہ نجی اسپتال شامل کیے گئے جو یا تو معیار پر پورے نہیں اترتے تھے یا جنہیں شامل ہی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 17 اسپتالوں کو صحت سہولت کارڈ پینل میں رجسٹرڈ نہ ہونے کے باوجود اربوں روپے کی ادائیگیاں کر دی گئیں۔ صرف سوات کے دو اسپتالوں کو ہی دیکھ لیں، جنہیں 1،1 ارب روپے سے زائد کی رقم ادا کی گئی، وہ بھی بغیر کسی رجسٹریشن کے۔
کیا یہ عوام کے ساتھ ایک سنگین دھوکہ نہیں؟ یا پھر یہ محض "نظام کی کمزوری” کے پردے میں چھپی ایک منظم کرپشن نہیں؟
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ 32 ڈی ایچ کیو اسپتالوں میں ضرورت سے زیادہ بھرتیاں کی گئیں، جس سے خزانے کو 82 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔ کیا خیبرپختونخوا حکومت یہ بتائے گی کہ کس بنیاد پر یہ بھرتیاں کی گئیں؟ کس کے کہنے پر؟ اور کیا ان افراد نے واقعی کام کیا؟
یہ سوالات ہر اس شہری کے ہیں جو اس ملک کا ٹیکس دہندہ ہے یا جس نے اپنی ماں، بہن، بیٹے کا علاج اس "انصاف کارڈ” سے کرانے کی امید لگائی تھی۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق صحت کارڈ سے فائدہ اٹھانے والے مریضوں کا مکمل ڈیٹا دستیاب ہی نہیں۔ یہ تو سیدھا سیدھا حساب کتاب چھپانے کا معاملہ ہے۔ 2022 میں جو "سینٹرل منیجمنٹ انفارمیشن سسٹم” متعارف ہونا تھا، وہ بھی کاغذوں تک محدود رہا۔ اگر نادرا اور محکمہ صحت اپنا سسٹم بروقت لاگو نہیں کر سکے تو پھر اتنے بڑے منصوبے کو چلانے کا کیا جواز تھا؟
سوال یہ ہے:کیا ان تمام اسکینڈلز کا کوئی احتساب ہوگا؟کیا ان غیر رجسٹرڈ اسپتالوں سے رقم واپس لی جائے گی؟کیا وہ افسران اور وزراء جنہوں نے یہ فیصلے کیے، ان سے جواب طلبی ہوگی؟یا پھر ہمیشہ کی طرح، ایک نئی حکومت، نئی کمیٹی، نیا وعدہ، اور پھر خاموشی؟
خیبرپختونخوا کے عوام اب مزید خاموش نہیں رہ سکتے۔ صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبے قوم کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اگر ان پر بھی کرپشن کی چھری چلائی جائے گی تو عام آدمی کے لیے جینے کا حق کیا رہ جائے گا؟
یہ محض مالی بے ضابطگی نہیں، بلکہ عوامی اعتماد کا قتل ہے۔ یہ وقت ہے کہ عوام، سول سوسائٹی، اور میڈیا ان اسکینڈلز پر مسلسل سوال اٹھاتے رہیں، تاکہ ذمہ داروں کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ورنہ کل کو کوئی اور حکومت، کسی اور نام سے، ایک نیا "انصاف کارڈ” لے آئے گی – اور ہم پھر اسی دائرے میں گھومتے رہیں گے۔