وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہےکہ افغان حکومت کی درخواست پر 48 گھنٹے کیلئے جنگ بندی کی، اگر وہ ہماری جائز شرائط پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں، اب گیند افغانستان کے کورٹ میں ہے ، جس وقت پاکستان پر حملہ ہو رہا تھا تو افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اُس وقت بھارت میں موجود تھے، ہمیں مجبورا انہیں جواب دینا پڑا ۔
اسلام آباد: وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نےکہا کہ افغانستان سے آپریٹ ہونے والے دہشتگردوں کو کھلی چھٹی حاصل ہے، ہماری تمام تر سنجیدہ کوششوں کے باوجود افغان حکومت قیامِ امن کے لیے ہمارا ساتھ دینے سے گریزاں ہے ۔
افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے موقع پر پاکستان پر حملہ کیا گیا:۔
ان کا کہنا تھا کہ جس وقت پاکستان پر حملہ ہو رہا تھا تو افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اُس وقت بھارت میں موجود تھے، ہمیں مجبورا انہیں جواب دینا پڑا، جب پاکستان نے انہیں منہ توڑ جواب دیا تو افغان حکومت نے سیز فائر کی درخواست کر دی، جس پر ہم نے 48 گھنٹے کے لیے سیز فائر کیا، اگر افغان حکام ہماری جائز شرائط پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم تیار ہیں، اب گیند کابل کے کورٹ میں ہے، اگر وہ سنجیدہ ہیں تو بات کو آگے بڑھائیں ۔
افغان حکومت کی خواہش پر ہونے والے سیز فائر کے بعد ہم نے امید ظاہر کی پاکستان کی ٹھوس شرائط پر یہ طویل مدتی سیز فائر ثابت ہونا چاہیے، اگر یہ سیز فائر صرف وقت حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے ۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے افغان حکومت کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کی، وہاں بسنے والے لوگ ہمارے بہن بھائی ہیں، ہم افغانستان کے ساتھ 2 ہزار کلو میٹر کا بارڈر شیئر کرتے ہیں ۔
افغان شہریوں کی خلوص نیت کے ساتھ مدد کی: ۔
پاکستان نے ہمیشہ افغان شہریوں کی خلوص نیت کے ساتھ مدد کی، محدود وسائل کے باوجود 40 لاکھ سے زائد افغان شہری دہائیوں سے یہاں رہائش پذیر رہے ،اس کے باوجود دہشت گرد وہاں سے آپریٹ کر رہے ہیں، فتنۃ الخوارج کو کھلی چھٹی حاصل ہے، ان دہشت گردوں نے ہمارے شہریوں، افواج پاکستان کے جوانوں اور افسران، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو شہید کیا، حالیہ واقعات کے بعد ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ وزیر خارجہ اسحٰق ڈار، وزیر دفاع خواجہ آصف اور دیگر لوگ کابل گئے، انہیں بتایا گیا کہ ہم دونوں ہمسایہ ملک ہیں، ہمیں قیامت تک ساتھ رہنا ہے، یہ ہمارے اوپر ہے کہ ہم نے ساتھ کس طرح سے رہنا ہے، پُر امن رہیں گے تو دونوں ملک ترقی کر سکیں گے ۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حالیہ پاک افغان کشیدگی کے دوران ہمارے دوست ممالک، خاص طور پر قطر نے اس معاملے کے حل کے لیے کوششیں کیں، دورہِ مصر میں امیر قطر نے مجھے کہا پاکستان پر حملہ نہیں ہونا چاہیے تھا، اس دوران انہوں نے معاملے کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ۔
دہشتگردی میں دوبارہ اضافہ کیوں ہوا؟
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ 2018 میں فتنۃ الخوارج کا مکمل خاتمہ ہو گیا تھا، کیا وجہ ہے کہ دوبارہ اس فتنے نے سر اٹھایا، اُس وقت کی حکومت نے ہزاروں دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دی اور انہیں خوش آمدید کہا، یہی بنیادی وجہ ہے کہ اس فتنے نے دوبارہ سر اٹھایا ۔
شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ سٹاف لیول کا معاہدہ ہو گیا، جلد ہی اگلی قسط ملے گی، آئی ایم ایف کا یہ آخری پروگرام ہونا چاہیے ۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ کیا پاکستان اس لیے معرض وجود میں آیا تھا، لاکھوں افراد نے جو اپنی جانیں قربان کی، ان لوگوں نے خواب دیکھا تھا کہ پاکستان اقوام عالم میں ترقی کرے گا اور اسلامی دنیا کو لیڈ کرے گا ۔
غزہ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غز میں امن معاہدہ ہوگیا ہے، تاہم 2 سالہ جنگ کے دوران 70 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے، جب امن معاہدے کے لیے پاکستان سمیت دیگر ممالک کوششیں کر رہے تھے، تو اس دوران وہ لوگ جو وہاں امن نہیں چاہتے تھے، وہ یہاں سیاست کر رہے تھے ۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں ہر جگہ جب شہادتیں ہو رہی تھیں تو یہ لوگ اُس وقت کہاں تھے، بجائے مظلوم لوگوں کی مدد کرنے کے سیاست کرنا، کیا یہ اسلام ہے، یہ کون سے بھائی چارہ ہے ۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے مزید کہا کہ غزہ میں قیام امن کے لیے کردار ادا کرنے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اس کے علاوہ خصوصی طور پر قطر، ترکیہ، مصر، سعودی عرب، یو اے ای نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا، پاکستان اور انڈونیشیا بھی اس میں شامل ہیں، ہم سب نے مل کر یہ کردار ادا کیا ۔