Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    جمعہ, نومبر 14, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • صدقے تھیوا فیم سہیل اصغر کو دنیا سے رخصت ھوئے آج چار سال ھوگئے۔۔۔
    • ناصر علی سید کی عمدہ کاوش( خیال خاطر احباب) کی رسم پزیرائ 15 نومبر کو کی جارھی ھے۔۔۔
    • خیبر پختونخواہ کے ادبی حلقوں کو خیبرٹی وی نے ھمیشہ یاد رکھا۔۔
    • شینو مینو شو ۔ کی واپسی ناظرین کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا گیا ۔۔۔
    • بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایک توجہ طلب اور سیرحاصل پروگرام( بنیاد) دیکھئے جمشید علی خان کے ساتھ۔
    • پولیس اور سی ٹی ڈی اہلکار خیبر پختونخوا کے امن کے ذمے دار، ضرورت پڑنے پر دیگر ادارے طلب کئے جائیں گے،امن جرگے کا اعلامیہ
    • 27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی دوتہائی اکثریت سے منظور
    • افغانستان کے تاجر پاکستان پر انحصار کے بجائے متبادل راستوں کو اپنائیں، نائب وزیراعظم ملا برادر
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » مفتی منیر شاکر،ایک منفرد عالم دین کی زندگی کے نشیب و فراز
    بلاگ

    مفتی منیر شاکر،ایک منفرد عالم دین کی زندگی کے نشیب و فراز

    مارچ 16, 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔5 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    Mufti Munir Shakir A Bold Religious Voice
    The Controversial Path of Mufti Munir Shakir
    Share
    Facebook Twitter Email

    مفتی منیر شاکر خیبر پختونخوا کی ایک ایسی غیر روایتی شخصیت تھے جنہوں نے دینی اختلافات اور شدت پسندی کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے ایف ایم ریڈیو اور سوشل میڈیا جیسے جدید ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال کیا۔ ان کی زندگی ایک متنازعہ مگر جرات مندانہ جدوجہد کی کہانی ہے، جس میں انہوں نے نہ صرف مختلف مذہبی مکاتب فکر سے شدید اختلافات کیے، بلکہ ریاستی اداروں کی متنازعہ پالیسیوں پر بھی کڑی تنقید کی۔ ان کی شخصیت پر مختلف سوالات اُٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ مفتی منیر شاکر نے اپنے غیر روایتی طریقہ کار اور منطق کے ذریعے عوام کے سامنے ایسے مسائل رکھے، جو روایتی علماء کے حلقے میں کم ہی اٹھائے جاتے ہیں۔

    مفتی منیر شاکر 1969 میں ضلع کرم کے گاؤں ماخی زئی میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی دینی تعلیم کراچی کے جامعہ بنوریہ میں ہوئی، جہاں انہوں نے مذہبی علوم کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی تعلیم کا آغاز ایک معمولی مدرسے سے ہوا، تاہم ان کے اندر فکری بیداری اور علم کا طلب انہیں ایک خاص مقام پر لے آیا۔ بعد ازاں انہوں نے اپنے آپ کو ایک فعال مذہبی شخصیت کے طور پر ابھارنا شروع کیا، اور یہی وہ وقت تھا جب ان کی زندگی کے آئندہ برسوں میں مذہبی اختلافات اور شدت پسندی کے خلاف ان کی جدوجہد کا آغاز ہوا۔

    2001 سے 2011 تک ضلع خیبر میں شدت پسندی کا عروج تھا۔ مفتی منیر شاکر اس دوران ایک اہم اور فعال کردار کے طور پر سامنے آئے۔ 2003 میں باڑہ میں انہوں نے حاجی نامدار کے ساتھ مل کر دین کی تبلیغ شروع کی اور یہاں ایک غیر روایتی طریقہ اپناتے ہوئے لوگوں کو مختلف مذہبی مسائل پر آگاہی فراہم کی۔ حاجی نامدار کے ساتھ مل کر انہوں نے "امر بالمعروف و نہی عن المنکر” کا نعرہ بلند کیا، لیکن جیسے ہی دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، مفتی منیر شاکر نے اپنی الگ تنظیم "حرکت الاسلام” قائم کی، جو بعد میں شدت پسندی کے خلاف تھی۔

    2004 میں مفتی منیر شاکر نے انصار اسلام کے سربراہ پیر سیف الرحمان کے خلاف کھل کر آواز اُٹھائی۔ پیر سیف الرحمان کے ساتھ ان کے اختلافات شدت اختیار کر گئے اور انہوں نے لشکر اسلام قائم کر لیا، جس کا مقصد علاقے میں سنی بریلوی مکتبہ فکر کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ مفتی منیر شاکر اور پیر سیف کے مابین اس تصادم میں دونوں کے پیروکاروں کے درمیان تشویش اور کشیدگی بڑھ گئی، اور دونوں گروپوں کے درمیان باقاعدہ جنگ کی سی صورتحال پیدا ہو گئی۔

    مفتی منیر شاکر نے اپنے ریڈیو اسٹیشن کے ذریعے اپنی آواز کو لوگوں تک پہنچایا، جہاں وہ پیر سیف الرحمان کے خلاف فتویٰ اور سخت بیانات جاری کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں 2005 میں دونوں گروپوں کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جن میں 21 افراد جان سے گئے، اور اس کے بعد دونوں رہنماؤں کو علاقے بدر کر دیا گیا۔ یہ جھڑپیں مفتی منیر شاکر کی زندگی کے ایک نکتہ عروج کے طور پر سامنے آئیں، جنہوں نے خود کو نہ صرف ایک عالم دین بلکہ ایک انقلابی رہنما کے طور پر پیش کیا۔

    2007 میں جب علاقے میں حالات مزید خراب ہو گئے، مفتی منیر شاکر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتار کر لیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد منگل باغ، جو کہ ان کے اتحادی تھے، لشکر اسلام کے سربراہ مقرر ہوئے۔ اس کے بعد ان کے گروپ اور انصار اسلام کے درمیان کئی مہینوں تک جھڑپیں جاری رہیں، جن میں 500 سے زائد افراد کی جانیں گئیں۔ اس دوران مفتی منیر شاکر کی گرفتاری کے بعد، ان کی مقبولیت میں کچھ کمی آئی، تاہم ان کے پیروکاروں کے درمیان ان کی اہمیت کم نہ ہوئی۔

    مفتی منیر شاکر نے 2007 میں گرفتاری اور رہائی کے بعد پشاور کے علاقے شیخ محمدی میں نیا ریڈیو اسٹیشن قائم کیا، تاہم اس کا اثر و رسوخ پہلے جیسا نہ رہا۔ پھر 2009 میں جب علاقے میں فوجی آپریشن "تھنڈر سٹورم” شروع ہوا، تو مفتی منیر شاکر ایک مرتبہ پھر منظر عام سے غائب ہو گئے۔ اس فوجی آپریشن کے دوران منگل باغ افغانستان فرار ہو گئے اور 2016 میں ان کی موت کی خبریں آئیں، جن کی تصدیق 2021 میں بارودی سرنگ دھماکے میں ہوئی۔

    اس دوران مفتی منیر شاکر نے ہنگو میں دوبارہ درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، اور پھر پشاور کے علاقے ارمڑ منتقل ہو گئے۔ 2010 کے بعد، مفتی منیر شاکر نے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال شروع کیا۔ ان کے فیس بک اور ٹک ٹاک اکاؤنٹس پر وہ مذہبی مسائل پر اپنے خیالات اور بیانات شیئر کرتے تھے، جنہیں بعض حلقوں میں متنازعہ سمجھا جاتا تھا۔ ان کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ 93 ہزار فالوورز کے ساتھ ایک اہم پلیٹ فارم بن چکا تھا۔

    مفتی منیر شاکر کی زندگی میں جو سب سے اہم پہلو تھا، وہ ان کا مختلف مذہبی مکاتب فکر سے اختلاف تھا۔ ان کی تقریریں اور بیانات اس بات کا غماز تھے کہ وہ دینی مسائل میں اختلافی سوچ رکھتے تھے۔ وہ ہمیشہ اپنی بات کو دلیل اور منطق کے ذریعے پیش کرتے تھے، اور اس وجہ سے وہ اپنے مخالفین کے لئے ایک چیلنج بن چکے تھے۔ ان کے پیروکاروں کا خیال تھا کہ وہ حقیقت کی طرف سے راہنمائی فراہم کر رہے ہیں، جب کہ مخالفین انہیں ایک متنازعہ شخصیت کے طور پر دیکھتے تھے۔

    مفتی منیر شاکر کا شمار پاکستان کے ان مذہبی رہنماؤں میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنے غیر روایتی طریقہ کار سے دینی اختلافات اور شدت پسندی کے خلاف کھل کر آواز اٹھائی۔ اگرچہ وہ اکثریت کی نظر میں ایک متنازعہ شخصیت تھے، مگر ان کی زندگی کا جارحانہ اننگز کھیلنے کا انداز انہیں دیگر علماء سے ممتاز کرتا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا اور ایف ایم ریڈیو کے ذریعے اپنے پیغام کو پھیلایا اور دین کے مختلف مسائل پر لوگوں کو آگاہ کیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنی جرات مندانہ سوچ اور عمل کے ذریعے اپنی آواز بلند کر سکتا ہے، چاہے وہ کتنے ہی مخالفین میں گھرا ہو۔

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleخیبر پختونخوا میں سیکیورٹی فورسز کی 2 مختلف کارروائیوں میں 9 دہشتگرد ہلاک، 2 جوان شہید
    Next Article نوشکی میں سیکیورٹی فورسز کی قافلے کے قریب دھماکہ، 7 افراد شہید
    Tahseen Ullah Tasir
    • Facebook

    Related Posts

    27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے بھی دوتہائی اکثریت سے منظور

    نومبر 12, 2025

    افغانستان کے تاجر پاکستان پر انحصار کے بجائے متبادل راستوں کو اپنائیں، نائب وزیراعظم ملا برادر

    نومبر 12, 2025

    واناکیڈٹ کالج کے تمام کیڈٹس اور اساتذہ کو ریسکیو کرلیا گیا، آپریشن مکمل، تمام دہشتگرد ہلاک

    نومبر 12, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    صدقے تھیوا فیم سہیل اصغر کو دنیا سے رخصت ھوئے آج چار سال ھوگئے۔۔۔

    نومبر 13, 2025

    ناصر علی سید کی عمدہ کاوش( خیال خاطر احباب) کی رسم پزیرائ 15 نومبر کو کی جارھی ھے۔۔۔

    نومبر 13, 2025

    خیبر پختونخواہ کے ادبی حلقوں کو خیبرٹی وی نے ھمیشہ یاد رکھا۔۔

    نومبر 13, 2025

    شینو مینو شو ۔ کی واپسی ناظرین کا دیرینہ مطالبہ پورا کردیا گیا ۔۔۔

    نومبر 13, 2025

    بلدیاتی نظام کے حوالے سے ایک توجہ طلب اور سیرحاصل پروگرام( بنیاد) دیکھئے جمشید علی خان کے ساتھ۔

    نومبر 13, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.