پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر: ۔
پختونخوا کا ضلع چارسدہ صوبے کے دیگر اضلاع سے کئی حوالوں سے مختلف ہے۔ شرح خواندگی، اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں تناسب اور آبپاشی کے بہترین نظام کی بدولت، چارسدہ ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ جید علمائے کرام کی ایک طویل فہرست، حاجی صاحب ترنگزئی اور حاجی محمد امین بابا جی کی برکات کے سبب چارسدہ دینی لحاظ سے بھی ایک سرفہرست ضلع ہے۔ غنی خان، اشرف مفتون، ڈاکٹر محمد اعظم اعظم اور اکرام اللہ گران جیسی بلند و بالا ادبی شخصیات چارسدہ کا ایک اور طرۂ امتیاز ہے۔ صحافت اور ثقافت کے حوالے سے بھی چارسدہ کی ایک نمایاں حیثیت ہے۔ اسمعیل شاہد، قاضی ملا، سید سردار بادشاہ، سید شہنشاہ، طارق جمال، میراوس، نوران شاہ طوفان اور علی مسلم (فلم سٹار) جدید دور کے معروف نام ہیں جن کا تعلق چارسدہ سے ہے۔ تاریخی طور پر عبدالا اکبر خان اکبر، علی خان، عبدالاکبر خادم، عبدالمالک فدا، نثار مظلوم، عبدالکافی ادیب، راحت سیال، اختر منیر منیر، مرتضیٰ خان شاہین اور دیگر کئی بڑے نام چارسدہ کا حسن ہیں ۔
ان تمام خوبیوں سے بڑھ کر چارسدہ کی خوبصورتی باچا خان کی انجمن اصلاح افاغنہ اور خدائی خدمتگار تحریکیں ہیں جنہوں نے دنیا کو سیاسی اور سماجی شعور عطا کیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کا آبائی گھر ولی باغ اگر چارسدہ میں واقع ہے تو دوسری جانب حیات محمد خان شیرپاؤ شہید کی ولولہ انگیز قیادت اور آفتاب احمد خان شیرپاؤ کی جدید ترقیاتی سیاست کا مرکز بھی چارسدہ ہے۔ شمس العلماء شمس الحق افغانی سے لے کر پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت تک کا تعلق چارسدہ سے ہے۔ افضل بنگش کی مزدور کسان تحریک، ماؤسٹ، سوشلسٹ اور کمیونسٹ تحریکوں کی قیادت بھی چارسدہ نے کی ہے ۔
چارسدہ میں سیاسی شعور، جدوجہد اور حریت کی تاریخ خان عبدالغفار خان باچا خان سے شروع نہیں ہوتی بلکہ پیر روخان نے مغل حکمرانوں کے خلاف آخری معرکہ چارسدہ میں آکر لڑا تھا۔ چارسدہ ہی سے پشتون کوڈ آف کنڈکٹ "پشتون ولی” کے پیغامات عام ہوئے تھے۔ زراعت اور تجارت کے علاوہ چارسدہ صنعت میں بھی شوگر مل اور پیپر مل جیسے عظیم منصوبوں کی وجہ سے آگے تھا ۔
مگر پھر اچانک چارسدہ کا زوال شروع ہوا۔ اس زوال کا آغاز افغانستان میں کمیونسٹ انقلاب کے ساتھ ہی ہوا۔ چارسدہ میں کلاشنکوف، ڈرگز اور جہاد متعارف ہوا اور طاقت کے نئے مراکز ایجاد کیے گئے جو آج ناقابلِ تسخیر قلعوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ گمنام لوگ نیک نام، طاقتور اور پیسے والے بن گئے اور یوں چارسدہ کے روایتی سماج میں دراڑیں پڑ گئیں۔ چارسدہ کے اصل باشندے جن میں اکثریت محمدزئی قبیلے کی تھی، کو غیر محسوس طریقے سے باجوڑ اور مہمند اضلاع کے باشندوں نے چارسدہ میں منتقل ہو کر اقلیت میں بدل دیا ۔
پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کی وجہ سے چارسدہ کا سیاسی منظرنامہ یکسر بدل گیا۔ تجربہ کار خاندانی سیاست دانوں کی جگہ سیاست میں نووارد لوگوں نے لی اور چارسدہ کا سماج راتوں رات بدل گیا۔ زرعی زمینیں تیزی کے ساتھ ہاؤسنگ سکیمز میں بدلتی گئیں۔ مقامی خانوادے ہجرت اختیار کرتے گئے۔ سیاسی اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا۔ لینڈ گریبرز، قبضہ مافیا اور جرائم پیشہ منظم گروہ طاقت پکڑتے گئے۔ جلتی پر تیل کا کام منشیات فروشوں نے مکمل کیا ۔
آج چارسدہ کی سیاست، معیشت اور حکومت منشیات فروشوں کے پاس ہے۔ سننے میں اتا ہے کہ بعض دینی مدارس، مساجد اور علما کے اخراجات منشیات فروش اٹھا رہے ہیں۔ ویلج کونسل سے لے کر قومی اسمبلی کے انتخابات تک منشیات فروشوں کا پیسہ لگا ہوتا ہے۔ وزارتوں اور سینیٹ تک کے لیے ادائیگیاں منشیات فروش کر رہے ہیں۔ ریاستی ادارے ان منشیات فروشوں کے آگے بے بس ہیں۔ طاقت کے مراکز تک منشیات فروشوں کی رسائی نے ضلع انتظامیہ کو کٹھ پتلی بنا رکھا ہے ۔
ویسے تو منشیات فروش پورے ضلع چارسدہ میں موجود ہیں مگر شمالی ہشتنگر، جو انتظامی طور پر تحصیل تنگی کے عمل داری میں ہے، منشیات کا گڑھ بن چکا ہے۔ اس بہتی گنگا سے ہر قابلِ ذکر شخصیت مستفید ہو رہی ہے۔ ضلعی انتظامیہ، پولیس، میڈیا اور ہر باخبر انسان سے لے کر ہر بے خبر شہری تک، سب ہر ایک کردار اور نظام سے واقف ہیں۔ جن قوتوں کی ذمہ داری آواز اٹھانا تھی، ان کے منہ میں منشیات فروش نوٹ ٹھونس چکے ہیں تو ان کے خلاف آواز کیسے اٹھے گی؟
تازہ ترین معلومات کے مطابق مختلف منشیات فروش گروہ اب باقاعدہ "گینگ وار” کی تیاریاں پکڑے ہوئے ہیں بلکہ "گینگ وار” کا آغاز ہو چکا ہے۔ جلد یا بدیر چارسدہ "لیاری” کی شکل اختیار کرنے والا ہے اگر فوری طور پر منشیات فروشوں کے خلاف ریاستی کارروائی نہیں کی گئی۔ ریاست کو کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ منشیات فروشوں کی طاقت اور گینگ وار کلچر آنے والے وقتوں میں پاکستان مخالف دہشت گرد قوتوں کی ریڑھ کی ہڈی بنے گا۔ وہ چارسدہ جہاں سے انسانیت اور زندگی کی آوازیں اٹھتی تھیں، اب موت اور بربادی کی نقیب بنتی جا رہی ہے، جس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے ۔