اسلام آباد(رشید آفاق) کہتے ہیں کہ ایک پیر و مرید کسی ملک میں گئے جہاں دیسی گھی دو روپے اور آلو چالیس روپے کلو میں فروخت ہورہا تھا،پیر صاحب نے کہا کہ یہاں سے جلد از جلد چلنا چاہئے لیکن مرید نے کہا کہ کچھ دن یہاں رہ کر دیسی گھی کھاکر باڈی شاڈی بنا دینگے آلو اگر مہنگے ہیں تو وہ ہم نہیں کھائینگے بلکہ دیسی گھی ہی تناول فرمائینگے،پیر صاحب نے کہا کہ یہاں سب کچھ اُلٹ پَلٹ چل رہاہے یہاں سے جتنا جلد ہوسکے بھاگنا چاہئے،بہرحال مرید کی فرمائش پر پیر صاحب نے واپس جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ایک دن مرید بازار جارہاتھا کہ پولیس نے روک کر ان کی گردن میں رسی ڈالی اور پھر خوش ہوکر نعرے لگائے کہ رسی فٹ ہوگئی،مرید صاحب کو گرفتار کیا،پوچھنے پر بتایا کہ ایک آدمی نے قتل کیا تھا جسے پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی لیکن اس کی گردن موٹی تھی اس لئے رسی اس میں فٹ نہیں آرہی تھی چونکہ یہاں انصاف جلدی فراہم کیا جاتاہے لہذا کسی کو تو پھانسی پر لٹکانا تھا،اس لئے رسی جس کی گردن میں فٹ ہوگی اسے پھانسی دی جائیگی،تمہیں کل پھانسی دی جائیگی،ادھر پیر صاحب تلاش کرتے کرتے کل اس میدان تک پہنچ گیا جہاں مرید صاحب کو پھانسی دینی تھی،پیر صاحب نے مرید کی طرف بھاگ کر کہا کہ میں اس کا پیر ہوں،یہ مرکر سیدھا جنت میں جائیگا لہذا پہلے مجھے جنت جانے کا حق ہے کیونکہ میں اس کا پیر صاحب ہوں،پہلے مجھے پھانسی دی جائے،یہ سن کر بادشاہ نے چلانگ لگا کر رسی اپنی گردن میں ڈال کر کہا کہ میں پوری سلطنت کا پیر ہوں اگر ایسی بات ہے تو پہلے مجھے پھانسی دی جائے تاکہ میں سب سے پہلے جنت میں جاوں اوریوں بادشاہ سلامت پھانسی پر لٹک گئے۔
اس طرح کا واقعہ ہمارے دوست اور ہر دلعزیز ڈی آئی جی اعجاز خان کے ساتھ بھی ہوا،خودکش حملہ کہاں ہوا تھا، اعجاز خان کہاں کے ڈی آئی جی تھے اور انہیں معطل کرکے نجانے کس جرم کی سزا دیکر پتہ نہیں کس کو خوش کرنا مقصود تھا؟پھر ستم ظریفی کی انتہا یہ کہ اعجاز خان جیسےعوامی اور تگڑے پولیس آفیسر وردی پہن کر آفس آتے جاتے ہیں بس۔
میرے خیال میں اس طرح کے جناتی تجربات کو اب بند ہونا چاہئے،پولیس کی بیش بہا قربانیاں ہیں جس کو قوم ساتھ قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے،پولیس اور پولیس کے اعلی آفیسرز کو عوام اپنا ہیرو سمجھتے ہیں،عوام اپنے ہیروز کو ہیروز دیکھنا چاہتے ہیں،پولیس اور عوام اب نہ صرف وہ نہیں رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے بلکہ وہ تمام ایسے ناقابل تسخیر کارناموں کو سمجھتے بھی ہیں،اس لئے پولیس کے بڑوں کو ایسے غیرمقبول،غیر موضوع اور غیر یقینی صورتحال میں ایسے غیرقانونی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں،یقین مانئے کہ اعجاز خان اب بھی اتنے ہی قابل قدر اور قابل تحسین ہیں جتنے وہ معطل ہونے سے پہلے تھے،بس اس میں پولیس کا دو طرح سے نقصان ہورہاہے،ایک یہ کہ پولیس ایک قابل آفیسر کی خدمات اور کام سے محروم ہوجاتی ہے دوسرا اس طرح کے فیصلوں سے خود پولیس کا مورال گر جاتاہے،پھر ہر آفیسر یہ سوچنے پر مجبور ہوگا کہ جب اعجاز خان جیسے قابل آفیسر کو یہ صلہ ملا تو ہم کونسی اچھائی کی امید رکھیں؟اور پھر تو ہمارے ہاں کچھ بھی ہوسکتاہے اور کسی ناکردہ گناہ کی سزا بھی بھگت سکتے ہیں۔
بس عرض پیش خدمت ہے کہ جو ہوا سو ہوا ۔اب اعجاز خان کو عزت و وقار کے ساتھ بحال کرکے پولیس کے اعلی آفیسر اپنی اور پولیس کے وقار میں اضافہ کریں اور خدارا آئندہ ایسے بے سروپا فیصلوں سے گریز کیا جائے،کیونکہ یہ صرف پولیس کا مسئلہ نہیں عوام کی امیدوں اور امنگوں کا مسئلہ ہے،کسی انتہائی عزت دار پولیس آفیسر کی عزت و وقار کا مسئلہ ہے،ایسے غیرسنجیدہ فیصلوں سے معاشرے کا سنجیدہ طبقہ متاثر ہوتاہے،پولیس کو اگر اپنی پولیس فورس عزت نہیں دیگی تو کیا انڈیا یا ایتھوپیا کے عوام دیں گے؟
خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔