خیبر نیوز کے پروگرام مرکہ میں میزبان حسن خان کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں پی ٹی آئی کے سابق رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے ساتھ بات چیت ہورہی ہے۔ محمود اچکزئی کے ذریعے سیاسی جماعتوں سے اور وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت ہورہی ہے۔ دوسرا نواز شریف اور عمران کے درمیان بھی رابطے بحال ہونا ایک خوش آئند بات ہے۔ عمران خان کے ساتھ بات چیت غیر مشروط طور پر ہورہی ہے جیسا کہ نواز شریف نے خود کہا کہ بات چیت میں کوئی شرائط نہیں ہونگی۔
فواد چودھری نے کہا کہ تلخیاں ہیں ن لیگ اور پی ٹی میں، اسلئے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان ایک نیوٹرل کردار ہو جو اچکزئی کے ذمے دیا گیا ہے۔ زرداری صاحب اور میاں صاحب میں اختلافات تھے آج ساتھ ہیں تو سیاست میں جوڑ توڑ ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا کو ساتھ ملانا چاہیے ، اس وقت پی ٹی آئی کے پی میں 75 فیصد ہے اور جے یو آئی 25 فیصد ہے دونوں ملکر ایک مضبوط طاقت بن سکتے ہیں۔ دوسرا مولانا کا ورکر ایک منظم ورکر ہے اور احتجاج میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کو جلد مولانا کے ساتھ معاملات طے کرنے چاہییں۔ مولانا کوئی این جی او نہیں چلا رہا تو اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے تھا۔
فواد چودھری کے مطابق پختونخوا کے لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ عمران خان کو آزاد کرانے کیلئے دیا تھا، اسلئے شاید وہاں کارکردگی کا مسئلہ نہیں ہے۔ لوگ پی ٹی آئی سے مطمئن ہیں۔ ووٹ وہاں کے لوگ عمران خان کے نام پر دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف پی ٹی آئی میں جھگڑے نہیں باقی پارٹیوں میں لڑائیاں ہورہی ہیں مگر اس وقت پی ٹی آئی کی خبریں زیادہ بن رہی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کا آغاز جنرل باجوہ کے ایکسٹینشن سے شروع ہوا، باجوہ نے ایک ایکسٹینشن لیا تھا پی ٹی آئی حکومت سے ،بعد میں کہا کہ دوسری بار ایکسٹینشن لوں گا مسلم لیگ ن کی حکومت سے، اس کے بعد ایک پورا پلان کرکے اس وقت کی حکومت کو غیر مستحکم کیا گیا اور پورے ملک میں ایک کرائسز بنا دیا گیا۔ جسکے کے نتیجے میں پاکستان ایک بڑے بحران کا شکار ہوگیا ہے۔
سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں ایک بیانیہ بنایا گیا کہ عمران خان جیل نہیں کاٹ سکتا اور آج عمران خان نہ صرف جیل میں ہے بلکہ جیل سے جو بات کرتا ہےپورا پاکستانی میڈیا اور یہاں تک کہ بین الاقوامی میڈیا بھی کوریج دیتا ہے، پھر کوشش کی گئی کہ پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی مگر الیکشن میں نتائج اسکے برعکس رہے، سیکیورٹی کا حال بھی آپ کے سامنے ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں حالات کیسے تھے اور آج کیسے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر کے مطابق ایکسٹینشن کا مسئلہ تھا ہی مگر جنرل باجوہ نے فیصلہ کیا کہ میں نے ایکسٹینشن اگلے ن لیگ کی حکومت سے لینے تھی اگر کوئی بھی کوالیفائی کرتا ہو اور وہ چاہتا ہو کہ آرمی چیف بنے وہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ ایکسٹینشن کا ہے، جو موجودہ آرمی چیف ہو وہ کہے کہ میں نے جانا ہی نہیں ہے تو یہ مسئلہ غور طلب ہے جسکو کوئی خاص توجہ نہیں مل رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پنڈی جلسے کا جنرل فیض کی تعیناتی سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر مسئلہ ہوتا تو تعیناتی کا نوٹیفکیشن عارف علوی روکتے مگر انہوں نے نہیں روکا اور سینیارٹی پر معاملہ ختم ہوا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس گزشتہ پریس کانفرنسز سے الگ تھی، نو مئی کا معاملہ پریس کانفرنس میں نہیں تھا اسی طرح ڈیجیٹل دہشتگردی کا مسئلہ نہیں تھا۔
فوادچودھری نے کہا کہ میرا رابطہ خان صاحب کے ساتھ ہے وہ مطمئن ہیں جب خان باہر آئے گا تو پھر دیکھیں گے۔ پی ٹی آئی پر وکلا کا قبضہ پارٹی کیلئے تباہ کن ہے۔ الیکشن کے فورا بعد تحریک میں جانا چاہیے تھا مگر نہیں گئے پھر دیگر واقعات ہوئے جس پر تحریک شروع کی گئی تو مجھے تو اسکی وجہ سیاسی امیچورٹی نظر آرہی ہے۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کا جلسہ ہوجائے گا، مجھے نہیں لگتا کہ جلسہ نہیں ہوگا، ابھی تو اجازت بھی مل گئی ہے۔ موجودہ حکومت حالات کو سیاسی معمول پر نہیں لانا چاہتی کیونکہ انکی سیاست ختم ہوجائے گی اگر حالات نارمل ہوئے۔پی ٹی آئی کا جلسہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ملتوی کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب میں پی ٹی آئی لیڈرشپ کو مسائل ہیں ۔پختونخوا میں جلسہ پنجاب کی نسبت آسان ہے۔پی ٹی آئی کی روپوش قیادت کو تب تک باہر نہیں آنا چائیے جب تک حالات معمول پر نہیں آتے۔ پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی بظاہر پولیس کررہی ہے مگر پشت پر اسٹیبلشمنٹ کام کررہی ہے۔پی ٹی آئی میں آج جو لوگ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ پرانے لوگ اگر واپس آئیں گے تو انکی حیثیت ختم ہوجائے گی۔ شاید یہی وجہ ہے میری پارٹی میں واپس جانے کی مخالفت کی گئی۔
کالعدم تنظیموں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات ایک اچھے مقصد کیلئے ہورہے تھے اگر پی ٹی آئی کی حکومت نا ختم ہوتی تو شاید یہ مسئلہ ابھی تک حل ہوجاتا۔ پی ٹی آئی حکومت کی افغان حکومت سے اچھے تعلقات تھے وہ ٹی ٹی پی کے مسئلہ میں پاکستان کی مدد کرنا چاہتے تھے، آج افغانستان سے تعلقات تاریخ کی بدترین سطح پر ہیں جو ٹی ٹی پی کے مسئلہ کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔