ایران پر اسرائیلی حملہ اور پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت — کیا یہ محض اتفاق ہے یا کوئی گہری سازش؟
دنیا ایک بار پھر ان قوتوں کی سازشوں کی زد میں ہے جو امن کے نام پر جنگی جنون کو فروغ دے رہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں پیش آنے والے دو بڑے واقعات نے اس نظریے کو مزید تقویت دی ہے کہ اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ صرف سیاسی اتحاد نہیں بلکہ ایک منظم جنگی ایجنڈا ہے، جس کا مقصد مسلم دنیا کو عدم استحکام کا شکار بنانا ہے۔
12 اور 13 جون کی درمیانی شب اسرائیل نے ایران کے خلاف ایک جارحانہ کارروائی کی، بالکل اُسی انداز میں جیسے بھارت نے 6 اور 7 مئی کی شب پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حملہ کیا تھا۔ ان دونوں حملوں کی ٹائمنگ، طریقہ کار، اور اہداف کو دیکھا جائے تو یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کی جھلک دیتے ہیں۔
پاکستان پر بھارتی جارحیت کے دوران اسرائیلی سفیر رووین آزار نے نہ صرف بھارت کی مکمل حمایت کی بلکہ "آپریشن سندور” کو جائز قرار دیا۔ اسرائیلی ڈرون ٹیکنالوجی جیسے "ہیروپ”، "ہارپی” اور "سوارم” کو اس حملے میں استعمال کیا گیا — یہ سب اسرائیل کی براہِ راست شراکت داری کے واضح ثبوت ہیں۔
ذرائع کے مطابق پاکستان پر بھارتی حملے سے قبل 15 سے 20 اسرائیلی اہلکار سری نگر اور مقبوضہ کشمیر پہنچے، جو جنگی ساز و سامان سے لیس تھے۔ ان اہلکاروں کا وہاں ہونا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اسرائیل پاکستان کے خلاف بھارتی مہم جوئی میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ مودی سرکار پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر مظالم ڈھا رہی ہے۔
پاکستان نے بھارتی جارحیت کا بروقت اور منہ توڑ جواب دے کر نہ صرف اپنے دفاع کو یقینی بنایا بلکہ اسرائیل-بھارت کے مشترکہ منصوبے کو بھی ناکام بنا دیا۔ اگر پاکستان کی طرف سے یہ سخت مؤقف اختیار نہ کیا جاتا تو آج ملک کو بھی ایران جیسے حالات کا سامنا ہوتا۔
پاکستان کا فلسطین اور کشمیر پر واضح اور دو ٹوک مؤقف بھارت و اسرائیل جیسے نظریاتی اتحادیوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔
ایران پر اسرائیلی حملہ اس گٹھ جوڑ کا اگلا قدم ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل اور بھارت صرف الفاظ کے نہیں، عملی طور پر بھی ایک مشترکہ ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں — مسلم ممالک کو کمزور کرنے کا ایجنڈا۔
پاکستان کو نہ صرف اپنی عسکری صلاحیتوں میں مزید اضافہ کرنا ہوگا، بلکہ سیاسی و سفارتی محاذ پر بھی جارحانہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ یہ وقت محض ردِعمل کا نہیں بلکہ مکمل تیاری، قومی اتحاد، اور ایک مضبوط سیکیورٹی ریاست کے طور پر خود کو پیش کرنے کا ہے۔