جب قیادت غائب ہو جائے: دریائے سوات کے سانحے میں خیبرپختونخوا حکومت کی ناکامی
جب قدرتی آفات آتی ہیں تو حکومتی قیادت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔ سوات دریا کے حالیہ سانحے میں خیبرپختونخوا حکومت کا چہرہ ناکامی، نااہلی اور بے حسی سے سجا ہوا نظر آیا۔
گیارہ قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں—جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل تھے۔ سیالکوٹ سے آئے ہوئے سیر و تفریح کرنے والے افراد صرف ناشتہ ہی کر رہے تھے کہ اچانک آنے والے سیلاب نے ان کی جان لے لی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز میں دکھایا گیا کہ کس طرح متاثرہ افراد دریا کے بیچ ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر پناہ لیے مدد کے لیے پکار رہے تھے، لیکن کوئی امدادی ٹیم، کوئی کشتی، کوئی سرکاری مشینری نظر نہ آئی۔
حکومت کہاں تھی؟ وہ ڈیزازسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کہاں تھی جو منٹوں میں حرکت میں آ جانی چاہیے تھی؟ جب اتھارٹی (NDMA) پہلے ہی خطرے کی نشاندہی کر چکی تھی تو مقامی سطح پر کوئی پیشگی وارننگ کیوں جاری نہیں ہوئی؟ یہ کوئی اچانک حادثہ نہیں تھا—یہ متوقع تھا۔ لیکن خیبرپختونخوا کا نظام حکومت حسب معمول مکمل ناکام رہا۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا: "یہ صرف نااہلی نہیں، بلکہ ایک شرمناک غفلت ہے۔” انہوں نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور سے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا—صرف وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے ہی نہیں بلکہ سیاحت کے وزیر کی حیثیت سے بھی۔ اور وہ بالکل درست کہہ رہے ہیں۔
جب حکومت سیاحتی مقامات پر بلائے گئے لوگوں کی حفاظت نہیں کر سکتی تو وہ کس اخلاقی بنیاد پر اقتدار پر قابض ہے؟ وزیر اعلیٰ صرف اقتدار کے مزے نہیں لے سکتے، اُن پر ذمے داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ اس سانحے کے دوران ان کی خاموشی، غیر موجودگی اور لاتعلقی ان کے ہر بیانیے سے زیادہ بول رہی ہے۔
یہ سانحہ صرف ایک واقعہ نہیں۔ خیبرپختونخوا ہر سال سیلاب کا شکار ہوتا ہے۔ ہر سال زندگیاں ضائع ہوتی ہیں، گھر برباد ہوتے ہیں، سڑکیں تباہ ہوتی ہیں۔ اور ہر سال حکومت صرف وعدے کرتی ہے۔ لیکن جب بارشیں آتی ہیں، دریا بپھرتے ہیں تو وہی پرانا اسکرپٹ دہرا دیا جاتا ہے: ناقص منصوبہ بندی، تاخیر سے ردعمل، اور موسم کو الزام دینا۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق صرف 24 گھنٹوں میں فلیش فلڈز اور لینڈ سلائیڈنگ نے مزید 11 جانیں لے لیں۔ 50 سے زائد مکانات کو نقصان پہنچا۔ اور یہ تو ابھی مون سون کا آغاز ہے۔
تو سیلاب سے بچاؤ کے نظام کہاں ہیں؟ ایمرجنسی انخلا کے منصوبے کہاں ہیں؟ ہر بار کسی المیے کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے کہ ارباب اختیار جاگیں؟
عوام معجزے نہیں مانگ رہے—بس بروقت الرٹ، محفوظ انفراسٹرکچر اور ذمہ دار حکومت مانگ رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت صرف نااہل ہی نہیں بلکہ غیر متعلق اور بے حس بھی ہے۔ پہلے سے دی گئی وارننگز کو نظر انداز کرنا، ریسکیو نہ بھیجنا، اور ذمہ داری قبول نہ کرنا—یہ سب اس نظام کی اخلاقی ناکامی ہے۔
اب وقت ہے کہ اصل معنوں میں احتساب کیا جائے۔ صرف رپورٹس یا کمیٹیوں میں نہیں—بلکہ سیاسی سطح پر۔ اگر وزیر اعلیٰ واقعی قیادت پر یقین رکھتے ہیں، تو انہیں صرف سوات کے لیے نہیں بلکہ پورے صوبے میں سالہا سال کی بدانتظامی پر استعفیٰ دینا چاہیے۔
کیونکہ اگر جانیں یونہی بہتی رہیں اور کوئی جواب دہ نہ ہو، تو پھر ہم کس قسم کی حکومت کے نیچے جی رہے ہیں؟