اسلام آباد سپریم کورٹ میں قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف لیگی امیدواروں کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس قاضی فائر عیسی کی سربراہی میں قائم 3رکنی بنچ نے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کے تین حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں لیگی امیدواروں کی کامیابی سے متعلق درخواستیں منظور کرلیں۔
سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے این اے این اے 79 ،این اے 81 اور این اے 154 لودھراں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ بحال کردیا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 2:1 کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔ جسٹس عقیل عباسی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔
اکثریتی فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے جو احترام کا مستحق ہے، لاہور ہائیکورٹ کے ججز نے الیکشن کمیشن کے سربراہ اور ممبران سے متعلق غیر ضروری ریمارکس دیے، لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔
عام انتخابات میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے تین آزاد امیدوار این اے 154 سے رانا فراز نون، این اے 81 گوجرانوالہ سے بلال اعجاز اور این اے 79 گوجرانوالہ سے احسان اللہ ورک کامیاب امیدوار قرار پائے تھے۔
ن لیگ کے عبدالرحمان کانجو، اظہر قیوم نارا اور ذوالفقار احمد نے دوبارہ گنتی کیلئے الیکشن سے رجوع کیا۔ دوبارہ گنتی کے بعد الیکشن کمیشن نے ن لیگ کے تینوں امیدواروں کو کامیاب قرار دیا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے کو آزاد اراکین نے لاہور ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن کے تحت چیلنج کیا۔ لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے تینوں امیدواروں کو کامیاب امیدوار قرار دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف ن لیگ کے اراکین نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے کے ذریعے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بحال کرتے ہوئے ن لیگ کے امیدواروں کی اپیلیں منظوری کیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ن لیگ کے تینوں اراکین قومی اسمبلی کامیاب قرار پائے۔