اسلام آباد سے ارشد اقبال کی خصوصی تحریر: ۔
سانحہ سوات پر بہت باتیں ہو چکیں اور ہوتی رہیں گی لیکن خیبر پختونخوا حکومت کی بے حسی قائم ہے اور قائم رہے گی ۔ صوبائی حکومت اپنے نام نہاد لیڈر کو جیل سے چھڑوانے کو ملک کے تمام مسائل کا حل سمجھتی ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں ، اگر ایسا ہوتا تو صوبے میں تحریک انصاف کی تیسری بار حکومت ہے ، ہر سال کوئی نہ کوئی بڑا سانحہ رونما ہو جاتا ہے لیکن پی ٹی آئی رہنماوں کو پرواہ ہی نہیں، سانحہ سوات کے بعد کئی افسران کو آگے پیچھے کیا گیا گیا اور کیا جا رہا ہے لیکن اصل ذمہ داروں کو سزا دینے کی روایت تحریک انصاف میں ہے ہی نہیں ۔کرسی پر بیٹھے طاقت کے نشے میں چُورہر طاقتور شخص کی آنکھیں اور کان بند ہوتے ہیں ، اس کو جو کچھ دکھایا جاتا ہے ،اس کے علاوہ اس کو کچھ نظر نہیں آتا ، جو کچھ اس کو سنایا جاتا ہے وہ اس کے علاوہ کچھ اور سننے کو تیار ہی نہیں ہوتا ۔اس کو ’’سب کچھ ٹھیک،عوام مطمئن‘‘ کی رپورٹ دی جاتی ہے اور وہ خود کو مطمئن کرلیتا ہے ۔کیونکہ اس کے اطمینان کے بعد کسی اور کے ساتھ کچھ بھی ہو جائے اس کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ کرسی کا نشہ ہی ایسا ہے ۔
سوات میں جمعے کو 27 جون کے سانحے کے بعد بھی حکمرانوں کے دل نہیں دھڑکے تو شائد ان کے سینے میں موجود دل پتھر کےہونگے،بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ اس سانحے کی ایسی انکوائری ہوتی کہ ذمہ داروں کو پھانسی دی جاتی ،لیکن جن کے سینے میں پتھر کے دل ہوں وہ کیونکر ذمہ داروں کے تعین کی بات کریں گے؟وہ کیوں ذمہ داروں کو سزا دلوائیں گے؟وہ کیوں انتظامیہ سے پوچھ گچھ کرینگے؟اگر بالفرض یہ سب کچھ ہوا بھی تو بھی اصل ذمہ داروں کو سزا نہیں ملے گی ، اور خدانخواستہ اگلے سال یا چند ماہ بعد ایک بار پھر اسی طرح کا سانحہ ہوگا اور پھر سر پکڑ کر بیٹھیں گے ۔
سانحہ سوات محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ یہ اجتماعی قتل ہے ،اور اس اجتماعی قتل کے خون سے صوبائی حکومت اور اس کے تمام متعلقہ اداروں کے ہاتھ رنگے ہیں،یہ سانحہ پورے صوبے کے حکمرانوں ،متعلقہ اداروں اور انتظامیہ کیلئے شرم کا طمانچہ ہے۔ ریسکیو ادارے لوگوں کو سہولتیں دینے اور مشکلات میں پھنسے افراد کو نکالنے کیلئے بنے ہیں لیکن سانحہ سوات میں انہی اداروں نے درجن سے زیادہ افراد کی زندگی چھین لی ۔بے رحم دریائی موجوں نے ایک ہی خاندان کے پندرہ چراغ بجھا دیئے اور سب کے سب درجن بھر اداروں کی لاپرواہی کے سامنے دم توڑ گئے۔دو گھنٹے سے زائد وقت سے ایک خاندان کی خواتین، مرد، بچے چیختے رہے، پکارتے رہے، ہاتھ اٹھاتے رہے۔ وہ زندہ تھے، وہ بچنا چاہتے تھے،جینا چاہتے تھے، وہ موت سے لڑ رہے تھے مگر ان کے مقابلے میں صوبائی حکومت اور ادارے مکمل مردہ تھے۔
کیوں؟ کیونکہ وہ کسی وزیرِ اعلیٰ کے بھتیجے، کسی مشیر کے اپنے ،کسی ایم این اے اور ایم پی اے کے رشتہ داریا کسی اعلیٰ افسر کے بچے اور ان کے گھر کے افراد نہیں تھے۔ وہ تو عام لوگ تھے اور ان کو سزا بھی اس وجہ سے ملی ۔
خیبرپختونخوا میں یہ وہی حکومت ہے جس کے وزیراعلیٰ ایک سال میں صرف بسکٹ پر کروڑوں پھونک سکتے ہیں،جن کے صوابدید فنڈ میں سالانہ 45 کروڑ روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے،جن کو صوبے کی سرکاری مشینری کو اسلام آباد پر چڑھائی کا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے،اس پارٹی کے لیڈر کو سیاسی جلسوں کیلئے ہیلی کاپٹر کے استعمال کی مکمل اجازت ہے ، اور یہ اجازت سابق وزیراعلیٰ محمود خان کے دور میں دی گئی، آج وہ بھی صوبائی حکومت پر تنقید کر رہے ہیں ۔
خیبرپختونخوا حکومت کا حال یہ ہے کہ یہاں حکمرانوں کے لیے ہیلی کاپٹرز، شیشے والے دفتر، ائیر کنڈیشنر، پروٹوکول سمیت تمام ادارے سر تسلیم خم ہیں۔ اور عوام کے لیے؟ کبھی دہشتگردی میں مارے جائیں گے،کبھی سڑک حادثات میں، کبھی دریابرد ہونگے،کبھی ان پر شیلنگ کی جائے گی ۔
کیا یہی "مدینہ کی ریاست” تھی جس کا خواب دکھایا گیا تھا؟ اگر یہی حالات رہے، تو خدانخواستہ کل کسی اور دریا میں کوئی اور خاندان غرق ہوگا، پھر وہی واویلا، وہی تعزیت، اور پھر وہی خاموشی ۔گزشتہ 12 سال سال سے صوبے میں حکومت کے مزے لینے والوں کو اب غور کرنا ہوگا کہ حکومت دفتروں میں بیٹھ کر سازشیں کرنے کا نام نہیں عوام کیلئے بھی کام کرنا ہوگا ۔اور ایسا کام جس سے سیاسی بو نہ آئے، جو صرف خالص عوام کیلئے ہو ۔