اسلام آباد، 10 جولائی 2025 — خیبر نیٹ ورک اور فلاحی تنظیم خودمختار ساوی کے اشتراک سے منعقدہ ایک اہم کانفرنس میں سیکیورٹی، سفارت کاری، تعلیم اور میڈیا کے ماہرین نے اس بات پر زور دیا کہ انتہاپسندی کا مقابلہ صرف سیکیورٹی آپریشنز سے نہیں بلکہ ترقیاتی منصوبوں اور مؤثر پیغام رسانی سے بھی کیا جا سکتا ہے۔
کانفرنس کا عنوان تھا "ترقی کے ذریعے انتہاپسندی کا خاتمہ: میڈیا اور تعمیر نو کا کردار”۔ یہ پروگرام خیبر نیٹ ورک آڈیٹوریم میں منعقد ہوا، جس میں دو نشستوں کے دوران ماہرین نے دہشتگردی کے اسباب، سماجی عوامل اور انسدادِ انتہاپسندی میں میڈیا کے کردار پر مفصل گفتگو کی۔
پینل سیشن 1: ترقی بطور انتہاپسندی کی روک تھام
پہلا سیشن خیبر نیوز کے چیف ایڈیٹر مبارک علی کی میزبانی میں منعقد ہوا۔ اس نشست میں درج ذیل ممتاز مقررین نے شرکت کی:
-
احسان غنی (سابق ڈی جی آئی بی اور نیکٹا کے سربراہ)
-
سید ابرار حسین (سینئر سفارتکار اور سابق سفیر برائے افغانستان)
-
پروفیسر ڈاکٹر شبانہ فیاض (ماہر انسدادِ دہشتگردی اور خواتین کے امن میں کردار پر تحقیق کرنے والی معروف استاد)
-
ڈاکٹر عرفان محسود (اسسٹنٹ پروفیسر، امن و تنازعات کے امور، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی)
اہم نکات:
1. سماجی و معاشی عوامل اور انتہاپسندی
ماہرین نے واضح کیا کہ غربت، بے روزگاری اور تعلیمی فقدان نوجوانوں کو انتہاپسند تنظیموں کی جانب راغب کرنے والے بنیادی عوامل ہیں۔ ڈاکٹر عرفان محسود نے مختلف علاقوں کے ڈیٹا اور کیس اسٹڈیز پیش کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے روزگار کی فراہمی اور تعلیم نے نوجوانوں کو پرامن راستے کی طرف مائل کیا۔
2. بنیادی ڈھانچہ اور مقامی حکومتیں
احسان غنی نے زور دیا کہ اسکولوں، ہسپتالوں، اور کاروباری مواقع کے ذریعے جنگ زدہ علاقوں کی بحالی سے انتہاپسندوں کی بیانیہ کمزور ہوتا ہے۔ مقامی حکومتوں کی شمولیت اور کمیونٹی کی قیادت میں ترقیاتی منصوبے ہی دیرپا امن کی بنیاد بن سکتے ہیں۔
3. چیلنجز اور رکاوٹیں
ماہرین نے کرپشن، بدانتظامی اور بیرونی مداخلت کو ترقیاتی کاوشوں کی راہ میں بڑی رکاوٹیں قرار دیا۔ امدادی فنڈز کو شفاف انداز میں ضرورت مند طبقات تک پہنچانا ناگزیر قرار دیا گیا۔
پینل سیشن 2: میڈیا، پیغام رسانی اور ڈی ریڈیکلائزیشن
دوسرا سیشن انتہاپسندی کے خلاف میڈیا کی حکمت عملی پر مرکوز رہا۔ اس نشست میں درج ذیل معروف شخصیات نے شرکت کی:
-
ڈاکٹر شفقت منیر (ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ایس ڈی پی آئی)
-
حسن خان (سینئر صحافی اور تجزیہ نگار)
-
فہد ملک (ڈیجیٹل میڈیا ماہر، تمغہ امتیاز یافتہ)
-
کیوان حامد راجہ (میڈیا انٹرپرینیور اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر، خیبر نیٹ ورک)
-
ڈاکٹر سید حسین سہرووردی (بین الاقوامی امور کے ماہر)
اہم نکات:
1. متبادل بیانیے کی ضرورت
ماہرین نے بتایا کہ انتہاپسند نظریات کا مقابلہ صرف تردید سے نہیں بلکہ مضبوط اور متاثرکن متبادل بیانیہ سے کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا مہمات جن میں سابق شدت پسندوں کے انٹرویوز شامل ہوں، لوگوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔
2. ذمہ دارانہ صحافت
حسن خان نے کہا کہ میڈیا کو تشدد کو سنسنی خیز انداز میں پیش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے کیونکہ اس سے انتہاپسند عناصر کو غیر ارادی طور پر شہرت ملتی ہے۔ آزاد میڈیا اور ریاستی اداروں کے درمیان شراکت کے ذریعے امن پر مبنی مواد فروغ دیا جا سکتا ہے۔
3. ڈیجیٹل ڈی ریڈیکلائزیشن
فہد ملک نے جدید ٹیکنالوجی جیسے AI اور الگورتھمز کا ذکر کیا جو افراد کی شناخت کر کے انہیں مثبت پیغامات پہنچا سکتے ہیں۔ تاہم، ماہرین نے اظہارِ رائے کی آزادی اور سنسرشپ کے درمیان توازن برقرار رکھنے پر زور دیا۔
شرکاء کے سوالات اور اختتامی گفتگو
دونوں سیشنز کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ بھی جاری رہا جس میں شرکاء نے دلچسپ اور بامعنی سوالات کیے جیسے:
-
کیا میڈیا واقعی امن کے فروغ میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے؟
-
انتہاپسندی کا خاتمہ صرف طاقت سے ممکن ہے یا معاشرتی اصلاح سے؟
-
کیا دور دراز علاقوں کے نوجوانوں کو قومی ترقی کے دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے؟
تقریب کے آخر میں شرکاء نے اس کانفرنس کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔ سابق سفیر ابرار حسین اور ڈاکٹر شبانہ فیاض نے کہا کہ معاشی انصاف اور تعلیمی سہولیات سے انتہاپسندی کا مؤثر مقابلہ ممکن ہے، جبکہ ڈاکٹر سہرووردی نے ملک بھر میں میڈیا لٹریسی پروگرام شروع کرنے کی تجویز پیش کی۔