پاکستان کی موجودہ سمندری ماہی گیری کی صلاحیت 500 ملین ڈالر تک ہے جس کو 100 بلین ڈالر تک بھی آگئے بڑھایا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں اس وقت 6 لاکھ افراد ماہی گیری کے شعبے میں ہیں۔جس میں سے تقریبا 82,583 افراد رجسٹرڈ ہے،سال 2023 میں 137000 میٹرک ٹن کے قریب مچھلی کو پکڑا گیا جس کی مالیت 105 ملین ڈالر تھی۔ بلوچستان میں اس وقت 36 کولڈ اسٹوریج پلانٹس نصب ہیں۔ماہرین کےمطابق اگر بلوچستان میں فش پروسیسنگ پلانٹس کو قائم کیا جائے تو صوبے میں ماہی گیری کی وجہ سے آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ماہی گیری کی صنعت ساحلی علاقوں سے وابستہ تقریباً 20 لاکھ لوگوں کو روزگار کے مواقع دے سکتی ہے۔اس لئے صوبے بھر میں ماہی گیری کی صنعت کے لیے قومی سطح کے منصوبے قائم کئے جانے چاہے۔حکومت نے سمندری ایمبولنس منصوبہ سمندرمیں پھنسے ماہی گیروں کو بروقت امداد فراہم کرنے کےلیے شروع کیا تھا۔جس میں گرین بوٹس اور پٹرولنگ بوٹس بھی فراہم کئے جاتے ہیں۔
سال 2021-2022 میں ماڈل فش مارکیٹ پسنی منصوبہ شروع کیا گیاجس پر تقریبا 10 ملین کے قریب لاگت آئی۔سال 2024-2025 میں پی ایس ڈی پی کے تحت نئے منصوبے،اتل اورسربندر کمپلیکس کا آغاز کیا گیا، اور ڈی ڈی ایس سی اسکیم کی منظوری بھی دی گئی۔جس کی کل لاگت 50 ملین روپے تک آئی۔اس کے برعکس محکمہ فشریز کی ڈیجیٹلائزیشن پر 100 ملین کے قریب لاگت آئی۔بلوچستان میں فش ہچیریوں کےقیام کی وجہ سے فش فارمنگ کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔یاد رہے کہ بلوچستان کی خوشحالی کے لیے کام کیا جارہا ہے۔