اگر عدلیہ سے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں ملتا تو جنرل الیکشن کے ساتھ ساتھ مخصوص نشستوں پر پی ٹی آئی کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور سینیٹ انتخاب میں انہیں اس الیکشن کی بنیاد پر کوئی نشست نہیں ملے گی ۔
آئین کے مطابق مخصوص نشستیں صرف رجسٹرڈ پارٹیوں اور ایک انتخابی نشان پر لڑنے والی جماعتوں کو الاٹ کی جاتی ہیں۔
موجودہ قومی اسمبلی میں جنرل نشستوں کی 266 نشستوں میں سے پنجاب کے 141، سندھ کے 61، خیبر پختونخوا کے 45 ، بلوچستان کے 16 اور اسلام آباد کے 3 حلقے ہیں۔
اسی کے تحت آئین کے آرٹیکل 106 کے مطابق صوبائی اسمبلی کی جنرل 593 نشستوں میں سے پنجاب کی 297 ، سندھ کی 130، خیبر پختونخوا کی 115 اور بلوچستان کی 51 نشستیں آئین میں طے ہیں اور اسی کے مطابق حلقہ بندی ہوئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو درخواست گزاروں نے چیلنج کیا تھا، الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے بھی انٹرا پارٹی انتخابات پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کے مبینہ نئے چیئرمین نے انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق دستاویز جمع کروائیں، پی ٹی آئی پر عام اعتراضات یہ تھے کہ پارٹی آئین کے تحت انتخابات نہیں بلکہ خفیہ طور پر کرائے گئے، کسی بھی ممبر کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں دی گئی، پی ٹی آئی کے دفتر میں کاغذات نامزدگی نہ تھے، خواہاں شخص نے بلے کا انتخابی نشان لینے کے لیے ایسا کیا۔
الیکشن کمیشن کے پولیٹیکل فنانس ونگ نے پی ٹی آئی کو سوالنامہ دیا، پولیٹیکل فنانس ونگ نے نیاز اللہ نیازی کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی پر اعتراض اٹھایا۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں مزید کہا گیا کہ عمر ایوب کو کسی آئینی فورم نے سیکرٹری جنرل تعینات نہیں کیا، عمر ایوب نیاز اللہ نیازی کو پارٹی چیف الیکشن کمشنر تعینات نہیں کرسکتے، پی ٹی آئی کے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کرانے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔