پاکستان میں ڈالر کی قدر میں غیر معمولی اضافے اور بڑھتی ہوئی سمگلنگ نے کرنسی مارکیٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کے لیے کرنسی ڈیلرز نے غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے ملک کی خفیہ ایجنسی سے براہ راست مدد طلب کر لی ہے۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین ملک بوستان کی قیادت میں ایک وفد نے 22 جولائی 2025 کو آئی ایس آئی کے ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر سے اہم ملاقات کی۔
ملاقات میں وفد نے واضح کیا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ اس کی سمگلنگ ہے، جو حالیہ ہفتوں میں دوبارہ شدت اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ایران اور افغانستان کے لیے ڈالر کی غیر قانونی منتقلی عروج پر ہے اور اس کے پس پردہ بلیک مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں شامل ہیں۔ بقول وفد سمگلر بڑے شہروں میں کرنسی ایکسچینج دفاتر کے باہر کھڑے ہو کر گاہکوں کو قانونی ریٹ سے زیادہ قیمت کی پیشکش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے صارفین قانونی کمپنیوں کے کاؤنٹرز تک نہیں پہنچ پاتے۔
بیان کے مطابق میجر جنرل فیصل نصیر نے اس معاملے پر سنجیدگی سے نوٹس لیا اور فوری کارروائی کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے اس بات کی یقین دہانی کرائی کہ وہ اس حوالے سے حکومت سے بات کریں گے اور لا انفورسمنٹ ایجنسیوں کو کرنسی سمگلرز کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے متحرک کریں گے۔
وفد نے یہ بھی شکایت کی کہ ایف بی آر کی نئی پالیسی کے تحت دو لاکھ روپے سے زائد نقد کیش پر ٹیکس نافذ کیا گیا ہے، جس کے باعث نان فائلر صارفین اپنی شناخت چھپانے کے لیے بلیک مارکیٹ کا رخ کر رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف قانونی کاروبار متاثر ہو رہا ہے بلکہ ملک کی معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ مزید برآں کرنسی ڈیلرز نے مطالبہ کیا کہ سٹیٹ بینک کے 2000 ڈالر کی خریداری کے سرکولر کو بنیاد بنا کر حکومت عوام کو اس حد تک خریداری پر ٹیکس سے استثنیٰ دے تاکہ بلیک مارکیٹ کی حوصلہ شکنی ہو سکے اور ڈالر کی مانگ میں کمی آئے۔
یاد رہے کہ جون 2025 کے آغاز میں ڈالر کی قدر 282 روپے تھی، جو بڑھتے ہوئے 285 روپے تک جا پہنچی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کو درپیش بین الاقوامی پابندیاں، ترسیلات زر میں کمی، برآمدات میں جمود اور بیرونی سرمایہ کاری کی کمی بھی روپے کی بے قدری میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر ملک میں ڈالر کے بحران کو جنم دیا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے اب خفیہ اداروں کی مدد لی جا رہی ہے۔