پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران یہ بات سب کی توجہ کا مرکز بنی کہ امریکہ، جو خطے میں بھارت کا اسٹریٹیجک اتحادی سمجھا جاتا ہے، اس بار بھارت کے بجائے پاکستان کے مؤقف کے قریب نظر آیا۔ حالانکہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ کئی اقتصادی، دفاعی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں، جبکہ پاکستان کا جھکاؤ واضح طور پر چین کی طرف ہے، جو امریکہ کا بڑا عالمی حریف ہے۔
اس غیر معمولی رویے کے دو ممکنہ اسباب بتائے جا رہے ہیں، جنہیں بعض مبصرین ایک "سازشی نظریہ” بھی قرار دیتے ہیں۔
پہلا سبب اسرائیل-غزہ جنگ اور عالمی دباؤ ہے۔اس وقت دنیا بھر میں اسرائیل کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے، خاص طور پر غزہ میں جاری جنگ کے بعد۔ بہت سے ممالک اور عوامی حلقے جو پہلے اسرائیل کے بارے میں غیر جانبدار تھے، اب اس کے شدید ناقد بن چکے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ میں جس فوجی منصوبے کے تحت کارروائی کا آغاز کیا تھا، وہ تاحال ناکام رہا ہے؛ نہ وہ غزہ پر مکمل قبضہ حاصل کر سکا ہے اور نہ ہی حماس نے ہتھیار ڈالے ہیں۔
دوسری جانب، امریکہ جو اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی سمجھا جاتا ہے، خود بھی اندرونی اختلافات کا شکار ہو چکا ہے، خاص طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی قیادت کے درمیان۔ ٹرمپ غزہ کے مسئلے کو کسی معقول حل تک پہنچانا چاہتے ہیں، لیکن اسرائیل ان کے منصوبے کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔
مغربی ممالک، عرب دنیا اور کئی عالمی طاقتیں بھی اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اسرائیل دنیا میں تنہائی کا شکار ہو چکا ہے — سوائے بھارت کے، جو اب بھی اس کا قریبی اتحادی ہے۔
بعض حلقوں کے مطابق اس دوران اسرائیل اور بھارت نے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا کہ پاکستان کے خلاف جارحیت کی جائے تاکہ دنیا کی توجہ اسرائیل-غزہ جنگ سے ہٹائی جا سکے، اور اسرائیل اس دوران غزہ پر زمینی قبضے کی کوشش کرے۔ تاہم، جب پہلگام حملہ ہوا، تو اس وقت امریکہ کے نائب صدر جی ڈی وینس بھارت کے دورے پر تھے۔
بعد میں انٹیلیجنس اداروں نے انہیں مطلع کیا کہ یہ ایک فالس فلیگ آپریشن ہے، جس میں اسرائیل بھی پس پردہ شامل ہے۔ وینس نے یہ معلومات صدر ٹرمپ تک پہنچائیں، جو پہلے ہی اسرائیل کے رویے سے ناخوش تھے۔ انہیں یہ اور برا لگا کہ اسرائیل، امریکہ کو بھارت-پاکستان کشیدگی میں الجھانا چاہتا ہے۔ اس کے بعد ٹرمپ نے بھارت کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا اور جنگ بندی کی ثالثی خود کی، جس پر بھارت مزید ناراض ہوا۔
دوسری وجہ، پاکستان کی اسٹریٹیجک لابنگ اور اقتصادی تعلقات ہیں۔جب امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے، تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے واشنگٹن میں کئی لابنگ کمپنیوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان کا مقصد پاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنا، کانگریس میں پاکستان مخالف بلز کو روکنا، اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا تھا۔
اسی دوران ٹرمپ کے قریبی بزنس پارٹنر "جنٹری بیچ” نے پاکستان کا دورہ کیا اور کئی نجی معاہدے کیے۔ حال ہی میں پاکستان نے ایک کرپٹوکرنسی کمپنی میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا ہے، جس کے 60 فیصد شیئرز ٹرمپ اور ان کے خاندان کے پاس ہیں۔
مزید برآں، پاکستان مستقبل قریب میں امریکہ کے ساتھ معدنی وسائل (خاص طور پر ریکوڈک جیسے ذخائر) پر بڑے معاہدے کرنے جا رہا ہے۔ یہ سب عوامل امریکہ کے لیے پاکستان کو ایک اہم شراکت دار بنانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں پاکستان نے نہ صرف میدان جنگ میں برتری حاصل کی، بلکہ سفارتی محاذ پر بھی ایک بڑی کامیابی حاصل کی۔ امریکہ، چین، ایران، ترکی، آذربائیجان اور دیگر کئی ممالک نے پاکستان کے مؤقف کو سراہا۔ جبکہ بھارت عالمی سطح پر تنہا ہوتا گیا اور اس کے کئی مغربی اتحادی بھی اس سے پیچھے ہٹ گئے۔