اسلام آباد(مبارک علی) افغانستان کے صوبہ کنڑ میں حال ہی میں آنے والے 6.0 شدت کے زلزلے نے ہزاروں جانیں لیں اور دیہات تباہ کر دیے۔ طالبان نے عالمی امداد کی اپیل کی، لیکن رپورٹس کے مطابق، طالبان کے سپریم لیڈر شیخ ہیبت اللہ اخوندزادہ غیر ملکی امداد مانگنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ یہ ہچکچاہٹ ان کے خود انحصاری کے بیانیے اور اسلامی شرعی قانونی جواز سے جُڑی ہے، جو طالبان کی نظریاتی بنیاد ہے۔ اخوندزادہ نے اب تک زلزلے کے متاثرین کے لیے کوئی عوامی ہمدردی یا تعزیت کا پیغام نہیں دیا۔ طالبان کے نظریاتی نقطہ نظر میں، قدرتی آفات کو اکثر "اللہ کی مرضی” سمجھا جاتا ہے، جو ان کی خاموشی کو مذہبی طور پر مستقل بناتا ہے۔
یہ رویہ طالبان کی وسیع تر عالمی نظریے کی عکاسی کرتا ہے، جہاں سخت نظریاتی نفاذ اور اخلاقی پولیسنگ کو عملی انسانی ضروریات پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کنڑ جیسے بحرانوں میں، یہ نکتہ نظر امداد کی فراہمی میں تاخیر یا کمی کا باعث بن سکتا ہے، جس سے کمزور طبقات مزید خطرات سے دوچار ہوتی ہیں۔ 2022 کے پکتیکا زلزلے میں، جہاں 1,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، طالبان نے ابتدائی طور پر عالمی امداد کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ دکھائی، لیکن بعد میں محدود امداد قبول کی۔ اسی طرح، 2023 کے ہرات زلزلے میں، امدادی ایجنسیوں کو طالبان کی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خصوصاً خواتین امدادی کارکنوں پر پابندیوں نے امدادی کوششوں کو متاثر کیا۔
کنڑ زلزلے کے بعد پاکستان، بھارت، چین، اور برطانیہ سمیت چند ممالک نے امداد کا وعدہ کیا ہے، لیکن امریکی امداد، جو پہلے افغانستان کے لیے سب سے بڑا ذریعہ تھی، 2025 میں تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، افغانستان کو اس سال 2.4 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، لیکن صرف 30 فیصد فنڈز موصول ہوئے ہیں۔ طالبان کی پالیسیوں، خصوصاً خواتین کے حقوق پر پابندیوں، نے عالمی امداد میں کمی کی ایک بڑی وجہ بنی ہے۔
طالبان کی خود انحصاری کی پالیسی اور نظریاتی سختی انسانی بحرانوں سے نمٹنے کی صلاحیت کو محدود کرتی ہے۔ کنڑ کے متاثرین کو فوری طبی امداد، خیموں، اور خوراک کی ضرورت ہے، لیکن طالبان کی ہچکچاہٹ اور عالمی امداد پر انحصار کم کرنے کی خواہش سے امدادی عمل متاثر ہو رہا ہے۔ تاریخی طور پر، طالبان کی اسی سوچ نے 1990 کی دہائی میں بھی امدادی کوششوں کو روکا تھا، جب عالمی تنہائی نے افغانستان کے عوام کو شدید مشکلات سے دوچار کیا۔ موجودہ صورتحال میں، طالبان کو نظریاتی سختی سے ہٹ کر عملی اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ متاثرین کی زندگیاں بچائی جا سکیں۔