کہانی اس دھرتی کے بہادر سپوت ، میجر عدنان شہید کی جنہوں نے چھٹی پے جاتے ہوئے رضاکارانہ طور پے بنوں آپریشن میں شمولیت اختیار کی ،میجر عدنان چھٹی پے اپنے گھر جانے کے لئے سفر کے دوران بنوں میں رات ٹھہرنے کے لئے رکے تھے، وہ کیسے اچانک رضاکارانہ طور پے اس آپریشن میں شامل ہوئے اور جام شہادت نوش کیا ؟؟
آئیے پڑھتے ہیں، کب ، کیسے اور کیوں ہوا ؟؟؟
2 ستمبر 2025 کو فیڈرل کانسٹیبلری کے بنوں ہیڈکوارٹر پے فتنہ الخوارج کے حملے کو ناکام بنانے کے دوران ایس ایس جی کمانڈو میجر عدنان نے شدید زخمی ھو گئے- میجر عدنان نے 9 ستمبر 2025 کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال میں دوران علاج اپنی جان کی بازی ہارتے ہوئے شہادت کا عظیم رتبہ پایا ۔
میجر عدنان شہید راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 135 لانگ کورس کے ذریعے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی ۔
پاکستان ملٹری اکیڈمی میں ٹریننگ کے دوران اپنی قابلیت کی بدولت انہیں ایک سال بعد برطانیہ کی رائل اکیڈمی سینڈہرسٹ ، برطانیہ میں ٹریننگ کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔ واضح رہے کہ یہ اعزاز صرف اُن چند خوش نصیب افسران کو ملتا ہے جو اپنی صلاحیت، لگن اور محنت سے سب سے آگے نکل جاتے ہیں ۔
2017 میں پاسنگ آؤٹ کے بعد میجر عدنان نے 29 فرنٹیئر فورس رجمنٹ جوائن کی اور بعد ازاں رضا کارانہ طور پے کمانڈوز کے دلیر دستے ایس ایس جی میں شمولیت اختیار کی ۔
2 ستمبر 2025 کا دن تھا ۔
میجر عدنان چھٹی پر اپنے گھر، راولپنڈی روانگی کی تیاری میں تھے کہ اچانک بنوں جانی خیل میں فیڈرل کانسٹیبلری پر دہشت گردوں کے حملے کی خبر ملی۔ بارود سے بھری گاڑی کے دھماکے سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور خوارج ہیڈکوارٹر کے اندر داخل ھو گئے ۔ اس نازک لمحے میں ایس ایس جی کمانڈوز کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ دشمن کا صفایا کریں ۔
میجر عدنان شہید کے اندر کے کمانڈو نے انگڑائی لی اور انھوں نے اُس وقت بھی اپنی ذاتی خواہشات اور آرام کو پسِ پشت ڈال دیا۔ گھر جانے کے بجائے فوراً آپریشن کا حصہ بنے، حالانکہ ان کی یونٹ براہِ راست اُس آپریشن کے لیے وہاں موجود بھی نہیں تھی ۔
یہ فیصلہ صرف ایک سچا سپاہی ہی کر سکتا ہے، جو اپنی زندگی کو قوم اور وطن کے نام کر چکا ہو ۔
آپریشن کے دوران چار دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جا چکا تھا، جبکہ ایک باقی رہ گیا تھا ۔
اس دوران میجر عدنان کو معلوم ہوا کہ ایک سپاہی زخمی ہے اور اُس کی جان کو خطرہ ہے ۔
اگرچہ میجر عدنان خود بھی زخمی تھے مگر انہوں نے زخمی سپاہی کو خطرے سے باہر لانے کے لیے خود آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔
جب وہ زخمی سپاہی کے پاس پہنچے ، اُسی لمحے ایک خارجی بھی عمارت سے نکل آیا ۔
اُس لمحے کی وائرل وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آخری دہشت گرد اندھا دھند فائرنگ کرتا ہوا عمارت کے اندر سے باہر نکلا ۔
میجر عدنان نے فائرنگ کی آواز سنتے ہی اپنے زخمی ساتھی کو بچانے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ لی ۔
وہ ڈھال بن کر اپنے ساتھی پر لیٹ گئے تاکہ خارجی کی گولیوں سے اپنے ساتھی کو بچا لیں ۔
خارجی نے میجر عدنان پے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی اور اپنی دانست میں انہیں شہید کر دیا ۔
یہ وہ قربانی تھی جو صرف داستانوں اور افسانوں میں ہی سننے کو ملتی ہے ۔
چند ہی لمحوں میں میجر عدنان نے شدید زخمی حالت میں بھی فائرنگ کر کے خوارجی کو مار ڈالا ۔
یہ وہ منظر تھا جسے دیکھ کر تاریخ بھی فخر سے سر بلند کرتی ہے۔ گولیاں سہنے کے بعد بھی ان کے چہرے پر خوف نہیں بلکہ ایمان اور عزم کی روشنی جھلک رہی تھی ۔
شدید زخمی حالت میں میجر عدنان کو سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیا جہاں ان کی دونوں ٹانگیں کاٹنی پڑیں۔ بعد ازاں انہیں راولپنڈی سی ایم ایچ لایا گیا، مگر زخموں کی شدت کے باعث وہ جامِ شہادت نوش کر گئے ۔
میجر عدنان شہید کی قربانی ہماری تاریخ کا ایک سنہری باب ہے۔ یہ شہادت محض ایک لمحے کا فیصلہ نہیں بلکہ ایثار، وفا اور جرات کا وہ چراغ ہے جو ہمیشہ روشن رہے گا ۔
میجر عدنان شہید کا نام ہمیشہ اُن بہادر سپوتوں کی صفِ اوّل میں رہے گا، جنہوں نے اپنی جان دے کر وطن کی حفاظت کی۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قربانی کو قبول فرمائے اور اُن کے درجات بلند کرے ۔