پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر: ۔
ملاکنڈ کے تاریخی اور بلند و بالا پہاڑوں میں گزشتہ پانچ دنوں سے آگ لگی ہوئی ہے۔ تادمِ تحریر، بہرحال کسی ادارے، فرد، وزارت یا حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی ہے کہ کم از کم کوئی رسمی خبر تو لے۔ آگ بجھانے کا عمل یا کوئی غیر جانبدارانہ انکوائری کہ اصل حقائق معلوم کیے جائیں تو درکنار، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ہے۔ گزشتہ پانچ دنوں سے علاقے کے عوام اپنی مدد آپ کے تحت آگ بجھانے کی کوششیں کر رہے ہیں، جو کامیاب نہیں ہوں گی۔ دور دراز علاقے اور تیزی سے پھیلتی ہوئی آگ انسانی بس سے باہر ہے۔ سرکاری سطح پر جدید مشینری کے تحت ہی آگ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ جنگلی حیات کے لیے ملاکنڈ کے پہاڑ جہنم ثانی بن چکے ہیں۔ نہ ہی ملاکنڈ اور پختونخوا کے پہاڑی سلسلوں میں یہ آتشزدگی کا پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ آخری حادثہ ہوگا۔ یہ سلسلہ تب تک جاری رہے گا جب تک آخری دیودار باقی ہے ۔
ملاکنڈ محض ایک پہاڑی سلسلہ نہیں ہے بلکہ پشتونوں کے لیے اس کی خصوصی تاریخی، سیاسی، معاشی، ماحولیاتی اور ادبی اہمیت ہے۔ پختونخوا بلکہ ملک بھر کا موسم، سیاحت، زراعت اور معیشت کا دارومدار ملاکنڈ پر ہے۔ پرانے زمانے کے پاکستان ٹیلیویژن کے خبرنامے کو اگر یاد کیا جائے تو ملک بھر میں کہیں بارش ہو یا نہ ہو، مگر ملاکنڈ ڈویژن میں مستقل گرج چمک، بارش اور برفباری کی پیشگوئی کی جاتی تھی۔ یہی ملاکنڈ کی پہاڑیاں ہیں جنہوں نے سوات کو پاکستان کے سوئزرلینڈ کی حیثیت بخشی ہے۔ یہی ملاکنڈ ڈویژن ہے جو چترال کے ثقافتی ورثے کا امین ہے۔ یہی ملاکنڈ پختونخوا کی سیاست، ادب، تاریخ اور اقتصاد کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ملاکنڈ پشتونوں کے مختلف قبائل کا گلدستہ اور ہماری آبپاشی کے نظام کا سرچشمہ ہے۔ یہی ملاکنڈ ہمارا قومی ورثہ ہے کہ ہزاروں سال کی تاریخ کا رکھوالا ہے۔ یہی ملاکنڈ ہے جس کی سیاحت کی آمدن صوبائی خزانے میں قابلِ قدر اضافہ کرتی ہے۔ ملاکنڈ کی یہ اہمیت قدرتی، فطری اور الٰہی ہے۔ حکومتوں نے اس کی تباہی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔
گزشتہ 13 سال سے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے ملاکنڈ کی بربادی کو بطور مشن لیا ہوا ہے۔ باوجود اس کے کہ گزشتہ 13 سال سے پی ٹی آئی بلا شرکت غیرے ملاکنڈ ڈویژن میں بھاری اکثریت سے جیتتی آ رہی ہے، مگر پھر بھی نہ جانے پی ٹی آئی کو اللہ واسطے کا کون سا بیر ملاکنڈ ڈویژن سے ہے۔ ملاکنڈ ڈویژن کی پہاڑیاں ان 13 سالوں میں مسلسل جلتی رہی ہیں۔ نہ تو آج تک پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو اس پر کوئی شرمندگی ہوئی ہے اور نہ ہی کبھی قوم سے رسمی معذرت کی گئی ہے۔ اور تو اور، نہ ہی آج تک کوئی انکوائری کی گئی ہے ۔
کیا یہ آگ واقعی کوئی قدرتی آفت اور حادثہ ہے؟ کیا یہ آگ کسی دہشت گردانہ کارروائی کا نتیجہ ہے؟ کیا یہ آگ کسی انسانی غلطی، کوتاہی یا بے پروائی کی وجہ سے لگتی رہتی ہے؟ ایسا بالکل اور قطعاً نہیں ہے۔ پہلے مرحلے میں چن چن کر سینکڑوں سال پرانے قیمتی درختوں پر نشانات لگائے جاتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں سرکاری سرپرستی میں ان کی کھلے عام کٹائی ہوتی ہے۔ تیسرے مرحلے میں حکومت کی نگرانی میں ان کی ملک بھر میں سمگلنگ کی جاتی ہے۔ چوتھے مرحلے میں ہر ثبوت کو مٹانے کے لیے منصوبہ بندی کے تحت آگ لگائی جاتی ہے۔ پانچویں مرحلے میں ماحولیاتی تباہی کا راگ الاپتے ہوئے جلی ہوئی پہاڑیوں پر شجرکاری کے لیے فنڈز منظور کیے جاتے ہیں۔ چھٹے مرحلے میں اگلی پہاڑی میں آگ لگائی جاتی ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے ۔
تحریک انصاف سے قبل بھی اگرچہ یہی کچھ دیگر حکومتوں میں بھی ایک محدود پیمانے پر کیا گیا تھا، مگر پی ٹی آئی کی مسلسل تیسری حکومت نے تو اسے ایک منظم دھندے کی شکل دی ہے۔ حکومت کو اس پر کوئی شرمندگی نہیں ہے کہ گندہ ہے پر دھندا ہے، کیونکہ حکومت کے مطابق دھندا ہر دھرم سے بڑا ہوتا ہے۔ اس بڑے پن کا باقاعدہ آغاز خود پاکستان تحریک انصاف کے پیٹرن اِن چیف عمران خان نے جعلی سونامی بلین ٹریز کے پراجیکٹ سے کیا تھا۔ اس پراجیکٹ کے تحت بلین جعلی ٹریز لگائے گئے تھے۔ اصل شجرکاری تو ایک طرف، حتیٰ کہ سرکاری کھاتوں میں بھی بلین ٹریز کے درست اندراجات تک نہیں ہوئے تھے۔ اگلے مرحلے میں جب کہانی زبان زدِ عام ہوگئی تو وسیع پیمانے پر آگ لگا کر کہانی ہی” ختم شد "کر دی گئی۔ ہر شجر کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اس حرام خوری میں اتنا فرق ضرور آ گیا ہے کہ پہلے متعلقہ لوگ کم از کم اپنے علاقے اور گھر کو بخشتے تھے۔ چار پہاڑ چھوڑ کر آگ لگاتے تھے۔ اب گھر ہی سے شروعات کی جاتی ہے ۔
گزشتہ پانچ دنوں سے لگی ہوئی آگ ضلع ملاکنڈ کے گاؤں کوٹ اور ہزار ناؤ کے پہاڑوں میں لگی ہوئی ہے۔ یہ علاقہ صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 24 میں آتا ہے۔ یہاں سے پاکستان تحریک انصاف کے منتخب رکنِ صوبائی اسمبلی پیر مصور غازی ہیں۔ حسنِ اتفاق ملاحظہ فرمایئے کہ موصوف پیر مصور غازی ہی بقلمِ خود صوبائی وزیرِ جنگلات حکومتِ خیبر پختونخوا ہیں۔ اب گل کر!