خیبر نیوز کے پروگرام مرکہ میں بات کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کاروں ڈاکٹر عرفان اشرف ، شفیق قریشی اور حماد حسن نے کہا ہے کہ ملک کو اس وقت ایک خودمختار اور بااختیار جمہوری نظام کی اشد ضرورت ہے جو دہشت گردی اور سیاسی نفاق کے سبب پیدا ہونے والے گھمبیر معاملات سلجھا سکے لیکن بدقسمتی سے اس وقت پارلیمینٹ عملاً مفلوج اور فیصلے کہیں اور ہو رہے ہیں۔
مرکہ کے ریگولر میزبان حسن خان کی عدم موجودگی میں پروگرام کی میزبانی کے فرائض مبارک علی نے انجام دیئے جنہوں نے اپنے تجزئے میں کہا کہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے ایک قومی بیانئے کی اشد ضرورت ہے لیکن بدقسمتی سے سانحہ آرمی پبلک سکول کے بعد ترتیب دیئے جانے والا نیشنل ایکشن پلان سرد خانے کی نذر ہوگیا ہے۔
ڈاکٹرعرفان اشرف نے کہا کہ صرف سال رواں کے دوران ملک میں دہشت گردی کے چھوٹے بڑے چودہ سو واقعات ہوئے ہیں جس میں ایک ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں جو دہشت گردی کے خلاف ریاست کے دعووں اور سیکیورٹی فورسز کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا افغانستان سے میانوالی بیس تک پہنچنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ریاستی اداروں کے درمیان رابطوں اور ہم آہنگی کا فقدان ہے۔
ڈاکٹرعرفان اشرف نے وزارت خارجہ کے کردار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ مذاکرات اور رابطوں کے حوالے سے وہ اپنا کام درست طریقے سے کریں تو مخصوص عناصر کو سازشیں کرنے کے مواقع نہیں ملیں گے۔ سینئر تجزیہ کار حماد حسن کا کہنا تھا کہ اس وقت مرکز اور صوبوں میں نئی حکومتیں بن گئی ہیں اور جمہوری نظام چل پڑا ہے جس سے مستقبل قریب میں استحکام آئے گا۔
انکا کہنا کہ جب بھی پاکستان استحکام کی جانب بڑھتا ہے تو دہشت گرد کارروائیاں بڑھ جاتی ہیں کیونکہ ملک دشمن عناصر ملک میں عدم استحکام چاہتی ہیں۔ اس موقع پر صحافی اور تجزیہ کار شفیق قریشی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے حالات جنرل پرویزمشرف کی غلط پالیسیوں کے سبب خراب ہوئے اور تاحال اس حوالے سے کوئی سنجیدہ کام نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ پائیدار امن کے لیے ملک میں موجود تمام حصہ داروں اور پڑوسی ممالک سے بات چیت کرنا ہوتی ہے۔