نئی دہلی: بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے ایک نیا اور متنازع وقف ترمیمی بل پیش کیا ہے، جسے ناقدین مسلمانوں کی زمینوں پر قبضے کی ایک اور سازش قرار دے رہے ہیں۔ اس بل کے تحت وقف املاک کو متنازعہ قرار دے کر حکومت کو ان پر قانونی طور پر کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برسوں میں مودی حکومت کی پالیسیاں مسلمانوں کے آئینی حقوق، مذہبی شناخت، اور جائیدادوں کو کمزور کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات ملک میں اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی سوچ کا حصہ ہیں۔
ادھر ہندو انتہا پسند تنظیمیں حکومتی حمایت کے ساتھ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہیں کہ مسلم رہنماؤں کے بیانات نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ یہ ایک چال ہے تاکہ وقف بل کی اصل نوعیت اور اس کے خطرناک نتائج سے عوام کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
کئی شہروں، خاص طور پر کولکتہ میں، مسلمان شہریوں نے سڑکوں پر آ کر اس بل کے خلاف احتجاج کیا۔ لیکن ان مظاہرین کو مجرموں کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، جب کہ اصل مجرم حکومت کی پالیسیوں اور خاموشی کو قرار دیا جا رہا ہے۔
تجزیہ کار خبردار کر رہے ہیں کہ یہ متنازع بل بھارت میں مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت اور جائیدادوں سے محروم کرنے کا ایک نیا ہتھیار بن چکا ہے، جو ملک کو خطرناک خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتا ہے۔