جب غربت اور مالی مشکلات کے باعث اپنا گھر بیچا جانے لگا، تو خریدار اسی گھر میں اپنا بھائی بن کر رہنے لگا۔
افسوس کے ساتھ یہ قلم اٹھا رہی ہوں کہ ہمارا قومی اثاثہ، پی آئی اے، مالی بحران کے باعث بیچا جا رہا ہے، جبکہ ہماری حکومتیں اپنے لئے خریداریوں میں مصروف ہیں۔ بولی کا اعلان ہوتے ہی اپنے ملک کے اندر خریدار پیدا ہو گئے، اور یہ خریدار کوئی اور نہیں بلکہ ہماری صوبائی حکومتیں ہیں۔
ایک طرف خیبرپختونخوا حکومت نے خریداری کی خواہش ظاہر کی، تو دوسری طرف مریم نواز نے بچوں کی طرح ضد کرتے ہوئے کہا کہ ’پاپا، پی آئی اے میرے لیے خرید لیں۔‘ کیا یہ قومی اثاثہ بیچ کر ہم مالی بحران سے نکل سکیں گے؟ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا ملک اور قومی ادارے تو غربت کا شکار ہیں، مگر انہی اداروں کو چلانے والے حکومتی افراد دولت مند ہیں۔
پاکستان میں ایسا کیوں ہے کہ قومی اثاثوں پر بچوں کی طرح ضد اور لڑائی جاری ہے؟ ایک کہتا ہے کہ ہم خریدیں گے، چاہے چندہ کیوں نہ اکٹھا کرنا پڑے، تو دوسری طرف پنجاب حکومت بضد ہے کہ اسے خریدنا ہے۔ اگر اسی جذبے سے سب اپنے ملک کے لیے دوڑ لگائیں اور کہیں کہ ہم اداروں کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، تو نہ قومی اثاثے بیچنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی ادارے مالی بحران کا شکار ہوں گے۔
اگر غور کیا جائے تو یہ منظر گاؤں کے ان بڑے گھروں جیسا ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے کئی چچا زاد کزنز رہتے ہیں۔ جب کوئی ایک بچہ کسی چیز کو دیکھ کر پسند کر لیتا ہے تو ضد کرتا ہے کہ ’’پاپا، ماما! میں نے یہ خریدنا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی دوسرے کزن کی ماما اپنے بچوں کو کہتی ہیں کہ ’’تم بھی لے لو،‘‘ یا پھر دوسرا بچہ خود کہتا ہے کہ ’’اگر وہ لے سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟‘‘
آج ہمارے قومی اثاثوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔ دو صوبے تو اس وقت اسی تگ و دو میں ہیں، اور دیکھتے ہیں کہ کہیں تیسرے صوبے کا لاڈلا بلاول بھی یہی خواہش نہ کر بیٹھیں۔ ہم عوام صرف تماشائی بنے دیکھ سکتے ہیں کہ کون اثاثہ بیچے گا اور کون خریدے گا؟