حکومت کے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں بجٹ سپورٹ کے لیے بینکوں سے قرضے منفی رہے، جو قومی خزانے میں زیادہ لیکویڈیٹی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک کے یکم جولائی سے 13 دسمبر2024 تک، کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 2 ہزار 875 ارب روپے کے خالص قرضے لینے کے مقابلے میں 2 ہزار 3 ارب روپے کے خالص قرضے واپس کیے گئے۔ یاد رہے کہ یہ تاریخی بات ہے، کیوں کہ ماضی میں حکومتیں بجٹ سپورٹ کے لیے بھاری قرضے لیتی رہی ہیں۔
یہ قرض واپسی (ریٹائرمنٹ) اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) رواں مالی سال کے ابتدائی 5 ماہ کے دوران وصولی کا متوقع ہدف حاصل نہیں کرسکا۔
حکومت نے مالی سال 23 کے 3 ہزار 748 ارب روپے کے مقابلے میں مالی سال 24 میں 7 ہزار 479 ارب روپے کا قرض لیا، جو اس سے گزشتہ سال کے مقابلے میں بجٹ سپورٹ کے لیے قرضوں میں دوگنا اضافے کا عکاس تھا۔
قرض ایک مرکزی نقطہ تھا، کیوں کہ اس نے مالی خسارے کو ظاہر کیا، مالی سال 2024 میں بجٹ خسارہ مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کا 6.8 فیصد یا 7 ہزار206 ارب روپے رہا، حالاں کہ صوبائی سرپلس 518 ارب 21 کروڑ روپے تھا۔
اس مالی خسارے کو مالی سال 24 میں جی ڈی پی کے 7.4 فیصد تک بڑھا دیا گیا تھا، چوں کہ اب پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے، اس لیے مالی خسارے کو گزشتہ سال کے مقابلے میں کم کرنا ہوگا۔
مالی سال 25 میں مجموعی مالیاتی خسارہ 7 ہزار 283 ارب روپے رہا، جو جی ڈی پی کا 5.9 فیصد ہے، جو مالی سال 24 میں نظر ثانی شدہ 7.4 فیصد سے کم ہے۔
مالی سال 25 کے لیے کل بجٹ کا تخمینہ 18 ہزار 900 ارب روپے ہے، جس میں مجموعی محصولات کی وصولیاں (ٹیکس اور نان ٹیکس) ، غیر بینک قرضے ، بینک قرضے ، خالص بیرونی وصولیاں اور نجکاری کی آمدنی بھی شامل ہیں، اقتصادی ترقی کا تخمینہ 3.6 فیصد ہے۔