امریکہ نے ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے اور صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ امن قائم ہو۔ واضح رہے کہ اس جنگ میں امریکہ نے کسی قسم کی ثالثی کا کردار ادا نہیں کیا بلکہ وہ خود اس جنگ میں فریق تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم نے امریکہ کی طرف سے دی گئی جنگ بندی کی تجویز کو قبول کرتے ہوئے کہا کہ "ہم نے ایران میں اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔”
سوال یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے وہ مقاصد کیا تھے؟
دونوں ممالک کا ہدف یہ تھا کہ: ایران کے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرام کو مکمل طور پر ختم کیا جائے، آیت اللہ خامنہ ای کی حکومت کا تختہ الٹا جائے،ایران میں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کی جائے اور آیت اللہ خامنہ ای کو قتل کر دیا جائے۔
تو کیا یہ سب مقاصد حاصل ہو گئے؟ نہیں۔ اگر یہ مقاصد حاصل نہیں ہوئے تو پھر جنگ بندی کی اصل وجہ کیا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ 13 جون کو ایران پر اسرائیلی حملوں سے شروع ہونے والی اس جنگ میں ایران کو خاصا نقصان پہنچا۔ ایرانی فوجی قیادت کے کئی اعلیٰ افسران قتل کیے گئے، ایٹمی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا گیا، تین سو کے قریب افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے، اسرائیل نے عام آبادی پر بمباری کی۔
لیکن ایران نے بھی بروقت جوابی کارروائی کی۔ اس نے تل ابیب، حیفہ اور یروشلم پر میزائل داغے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان حملوں میں شدت آئی۔ ایران نے "خیبر شکن” اور دیگر ہائپرسونک میزائل استعمال کیے، جس سے اسرائیل کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اسرائیل کبھی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ایران اس شدت سے تل ابیب اور حیفہ جیسے شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ اسرائیل کا تین سطحی فضائی دفاعی نظام ناکام ہو گیا اور ملک میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
اس کے بعد امریکہ نے دنیا کو دھوکہ دیتے ہوئے ایران کی تین اہم جوہری تنصیبات—فردو، اصفہان اور نطنز—پر حملے کیے۔ بی-ٹو بمبار طیاروں سے "ایم او پی 6” بم فردو پر گرائے گئے جبکہ دیگر سائٹس پر میزائل داغے گئے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بڑے فخر سے اعلان کیا کہ امریکہ نے ایران کے جوہری پروگرام کو تباہ کر دیا ہے، اور اگر ایران نے بدلہ لینے کی کوشش کی تو امریکہ سخت جواب دے گا۔
ادھر ایران نے کہا کہ ان کی جوہری تنصیبات کو معمولی نقصان پہنچا ہے اور افزودہ یورینیم پہلے ہی محفوظ مقامات پر منتقل کر دی گئی تھی۔ پاسداران انقلاب نے امریکی صدر کی دھمکی کو کوئی اہمیت نہ دیتے ہوئے اعلان کیا کہ ہر حملے کا مؤثر جواب دیا جائے گا، اور ایسا ہی ہوا۔ ایران نے قطر، کویت، عراق اور بحرین میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر میزائل داغے۔ اگرچہ یہ حملے علامتی نوعیت کے تھے اور ایران نے ان کی پیشگی اطلاع بھی دے دی تھی، لیکن اس کا سیاسی اور دفاعی پیغام بہت مضبوط تھا۔
اس کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ جنگ شدت اختیار کرے گی، اور امریکہ جارحانہ رویہ اختیار کرے گا۔ مگر اس کے برعکس، امریکہ نے جنگ بندی کی تجویز دی، اور اسرائیل و امریکہ دونوں نے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا۔
جنگ بندی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن میرے خیال میں دو وجوہات زیادہ اہم ہیں۔ ایران نے ثابت کر دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ طویل جنگ لڑ سکتا ہے۔ اسرائیل اکیلا پڑنے لگا تھا، اور چونکہ امریکہ براہ راست اس جنگ میں شامل نہیں تھا، اس لیے اسرائیل کے لیے یہ جنگ جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ ایران کی جوابی کارروائیاں یہ ظاہر کر رہی تھیں کہ اس کے پاس میزائلوں کا بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ امریکہ نے اسرائیل کو جنگ بندی کے ذریعے بچایا۔
دوسری وجہ ، غزہ میں اسرائیلی مظالم کے بعد عرب دنیا میں عوام کی رائے اسرائیل اور امریکہ کے خلاف ہو چکی ہے۔ چونکہ بیشتر عرب ممالک میں بادشاہتیں قائم ہیں، اس لیے انہیں خدشہ ہے کہ کوئی مخالف اس عوامی رائے کو استعمال کر کے ان کی حکومت کا تختہ نہ الٹ دے۔ چنانچہ ممکن ہے کہ ان عرب ریاستوں نے بھی جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالا ہو، کیونکہ جنگ اب اسرائیل عرب سرزمین استعمال کر کے لڑ رہا تھا۔
اگر صدر ٹرمپ امن کی قیام کیلئے ایران اسرائیل جنگ بند کرسکتا ہے اور تو غزہ میں کیوں نہیں کرتے؟
جہاں تک ایران کے جوہری پروگرام کا تعلق ہے، اب ایران مزید تیزی سے اس پر کام کرے گا، کیونکہ اسے اندازہ ہو چکا ہے کہ ایٹمی طاقت کے بغیر اس کا دفاع ممکن نہیں۔ ایران پہلے ہی ایٹم بم بنانے کے آخری مراحل میں داخل ہو چکا ہے۔