28 جون 2025 کو شمالی وزیرستان کے پُرآشوب علاقے میر علی میں ایک اور المناک سانحہ پیش آیا۔ خودکش حملے میں پاک فوج کے کئی بہادر سپاہی شہید ہوئے جبکہ متعدد شہری زخمی ہوئے۔ اس دہشتگرد حملے نے ایک بار پھر اس اہم سوال کو جنم دیا ہے کہ آخر کب تک مقامی افراد کی طرف سے خوارج جیسے انتہا پسندوں کو سہولت فراہم کی جاتی رہے گی؟
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ 800 کلوگرام بارود سے بھری گاڑی کیسے تیار کی گئی، رات بھر کہاں چھپائی گئی، اور دن کے اجالے میں اپنے ہدف تک کیسے پہنچی؟ کس ورکشاپ نے اس تباہ کن گاڑی کی تیاری میں مدد دی؟ کس گھر نے اسے پناہ دی؟
یہ محض سوال نہیں، بلکہ ہماری داخلی سلامتی کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ پہلے بھی دہشتگردوں نے اسی علاقے میں مساجد، بازاروں اور گھروں کو حملوں کے لیے استعمال کیا ہے۔ کیا ایسے حملے مقامی مدد کے بغیر ممکن ہیں؟ افسوسناک سچ یہ ہے کہ نہیں۔
سیکیورٹی فورسز کے پاس باوثوق اطلاعات ہیں کہ میر علی کے بعض گھروں میں دہشتگردوں کو پناہ دی گئی ہے۔ یہ دہشتگرد عورتوں اور بچوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ پاک فوج شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کرتی ہے۔ وہ گھروں سے فائرنگ کرتے ہیں اور جب جوابی کارروائی کی جاتی ہے تو شور مچتا ہے: "ہمارے گھر نشانہ بنائے جا رہے ہیں!” مگر کوئی نہیں کہتا کہ پہلا وار انہی گھروں سے ہوا۔
یہ خاموش سہولت کاری نئی نہیں۔ تیرہ ویلی، میدان، ملک دین خیل اور نختَر میں بھی یہی طرزِعمل دیکھا گیا۔ ہر بار دہشتگردوں نے گھروں سے حملے کیے، ویڈیوز موجود ہیں۔ فوج نے بارہا گھروں کو خالی کرنے کی وارننگ دی، لیکن مقامی افراد نے ان وارننگز کو ظلم کہا۔
سوال یہ ہے:
کیا ریاست کے دشمنوں کو پناہ دینا ظلم نہیں؟
کیا عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنانا بربریت نہیں؟
کیا خاموشی اختیار کرنا جرم نہیں؟
خوارج مجاہد نہیں، قاتل ہیں۔ وہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر خون بہاتے ہیں۔ وہ ہمارے امن کو برباد، معاشرے کو تقسیم، اور بچوں کے مستقبل کو تاریک کر رہے ہیں۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم فیصلہ کن لکیر کھینچیں: جو بھی دہشتگردوں کی سہولت کاری کرے گا، وہ ان کے جرم میں برابر کا شریک ہوگا، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
یہ صرف فوج کی جنگ نہیں۔ یہ پوری قوم کی جنگ ہے۔ خاموشی اب خودسپردگی ہے۔