راولپنڈی میں پریس بریفنگ کے دوران ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا ہے کہ 9 مئی کے اصل گھناؤنے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا، ملٹری کورٹس کو عالمی عدالت کی تائید حاصل ہے ۔
9مئی کے اصل کرداروں کو اپنے انجام تک پہچایا جائیگا:
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا، جب تک 9 مئی کے منصوبہ سازوں اور اصل گھناؤنے کرداروں کو آئین اور قانون کے مطابق کیفر کردار تک نہیں پہنچادیا جاتا، کیوں کہ پاکستان اور پاکستانی قوم اس جیسے کسی سانحے اور ایسی انتشاری سیاست کی اجازت نہیں دے سکتی ۔
انہوں نے کہا کہ وہ نوجوان بچے جنہیں زہریلا پروپیگنڈا کرکے ریاست اور اداروں کے خلاف کھڑا کیا گیا، ان کے والدین کودیکھنا چاہیے کہ ان کے بچوں کو مخصوص سیاسی ایجنڈے کے لیے کس طرح استعمال کرکے سیاست کی بھینٹ چڑھایا گیا، کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں، اس بیانیے اور پروپیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی اصل ملزم ہیں، اس لیے انصاف کا سلسلہ اس وقت تک چلے گا ۔
ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2023 میں اعلیٰ عدلیہ نے ملزمان کی ملٹری کورٹس کو حوالگی کا معاملہ منجمد کر دیا تھا، حال ہی میں 7 رکنی بینچ کے فیصلے کی روشنی میں سزائیں سنانے کا عمل مکمل کیا جاچکا ہے ۔
مجرموں کو آئین و قانون کے مطابق سزائیں سنائی گئیں :
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ جس میں مروجہ قانون کے تحت ثبوت اور شواہد کے مطابق تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرکے وہ تمام لوگ جو 9 مئی کی ہنگامہ آرائی میں ملوث تھے اور جن کو قانون کے مطابق فوج کی تحویل میں دیا گیا تھا، انہیں سزائیں سنانے کا عمل مکمل ہوچکا ہے ۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے سانحہ 9 مئی کے ملزمان کو دی گئی سزاؤں کے فیصلے سے واضح پیغام جاتا ہے کہ اس طرح کے معاملات کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اور مستقبل میں بھی کوئی اس قسم کے معاملات میں ملوث ہوگا تو اسے آئین و قانون کے مطابق بہرصورت سزا ملے گی ۔
پاکستان میں ملٹری کورٹس آئین و قانون کے مطابق دہائیوں سے قائم ہیں:
انہوں نے واضح کیا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے سویلین بالادستی اور شفافیت کے فقدان کا جو بیانہ بنایا جا رہا ہے، اس کے بارے میں یہ جاننا ضروری ہے کہ پاکستان میں ملٹری کورٹس آئین و قانون کے مطابق دہائیوں سے قائم ہیں اور یہ انصاف کے تمام تقاضوں کو بخوبی پورا کرتی ہیں، عالمی عدالت انصاف نے بھی اس کے پورے عمل کی تائید کی ہے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ملٹری کورٹس کو اپنا وکیل کرنے، اپنے شواہد پیش کرنے، گواہ لانے، جراح کرنے سمیت تمام قانونی حقوق مہیا کیے جاتے ہیں اور اگر مجرموں کو سزا ہوجائے تو نہ صرف کورٹ اپیل میں آرمی چیف بلکہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں بھی انہیں اپیل کا حق حاصل ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ملٹری کورٹ کے فیصلے بھی سپریم کورٹ کا حکم آنے کے بعد سنائے گئے ہیں، جب 9 مئی کے واقعات کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ملتا تو ملٹری کورٹ کے طریقہ کار کے حوالے سے پروپیگنڈا کیا جاتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ آج ملٹری کورٹس پر بات کرنے والے کل اس کے سب سے بڑے داعی تھے ۔
کیا 9 مئی واقعات ایجنسیوں نے کروائے؟
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے کہا کہ کچھ عرصے پہلے یہ بیانیہ بنایا جارہا تھا کہ احتجاجی انتشاری ایجنسیوں کے پلانٹ کردہ لوگ ہیں اور فوج نے گہری سازش کے تحت خود یہ حملے کرائے ہیں، پھر اگر ہم نے اپنی ایجنسیوں کے بندوں کو اپنے قانون کے تحت سزائیں دے دی ہیں تو ان انتشاریوں کو خوش ہونا چاہیے، لیکن اب وہ پریشان ہیں کیونکہ اپنے اقتدار کی ہوس میں وہ منافقت اور فریب کی آخری حدوں کو عبور کرچکے ہیں ۔
امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی 9 مئی جیسے واقعات ہوئے:
انہوں نے مطالبہ کیا کہ انسداد دہشت گردی عدالتوں میں 9 مئی کے مقدمات کو بھی انجام تک پہنچنا چاہیے، دنیا میں نظر دوڑائیں تو ابھی لندن میں اس سال جولائی میں جھوٹی سوشل میڈیا پوسٹوں پر جو فسادات ہوئے، ان میں سرعت کے ساتھ نا صرف بالغوں بلکہ نابالغوں کو بھی سزائیں ہوئی ہیں، 2020 میں کیپیٹل ہل پر حملہ کیا گیا تو ملزمان کو کتنی تیزی سے سزائیں دی گئیں؟
ان کا کہنا تھا اس سے قبل 2011 میں لندن میں 1200 سے زائد ملزمان کوتیزی سے سزائیں دی گئیں، 2023 میں فرانس کے فسادات میں 700 سے زائد لوگوں کو دنوں میں سزائیں دی گئیں، دنیا بھر میں سیاسی انتشاریوں کو کہیں جگہ نہیں دی جاتی ۔
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ پاک فوج کسی بھی سیاسی جماعت کی مخالف ہے، نہ کسی مخصوص جماعت کی حمایت کرتی ہے، کوئی بھی افسر جو سیاست کے حوالے سے ملک کا مفاد پس پشت ڈالے گا، اسے قانون کے مطابق جواب دینا ہوگا ۔
26 نومبر کے واقعے کے پیچھے 9 مئی کی دہشتگردی کی سوچ تھی :
ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے ڈی چوک پر احتجاج کے حوالے سے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص سیاسی جماعت کی جانب سے 26 نومبر کو سازش رچائی گئی، اس کے پیچھے سیاسی دہشتگردی کی سوچ کار فرما ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ تشدد اور منفی سیاست کا سلسلہ 2014 میں پارلیمنٹ پر حملے سے شروع ہوا، سانحہ 9 مئی 2023 میں بھی یہی تشدد دکھائی دیا، حال ہی میں 26 نومبر کو بھی ایسا تشدد دیکھنے میں آیا، تاہم عوام کے شعور کی وجہ سے یہ سازش ناکام ہوئی، ان لوگوں نے پاکستان کی ترقی، امن و خوشحالی کا سفر متاثر کرنے کی کوشش کی، اس کی راہ میں روڑے اٹکائے ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 26 نومبر کو فوج کی تعیناتی صرف ریڈزون تک محدود تھی، کیوں کہ وہاں دوست ممالک کے اہم غیر ملکی مہمان موجود تھے، یہ وزارت داخلہ کے نوٹیفکیشن میں بھی واضح کیا گیا تھا کہ جو اس مسلح ہجوم کی سیاسی قیادت کیساتھ گارڈز آتشیں ہتھیاروں کے ساتھ موجود تھے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم سب نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ سب مسلح گارڈز اور اسلحہ دیکھ بھی لیا تھا، انتظامیہ کی جانب سے موقع پر موجود پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو اسلحہ دیا ہی نہیں گیا تھا، جب ان کی سیاسی قیادت احتجاج سے فرار ہوئی تو سوشل میڈیا پر ’فیک کونٹینٹ‘ وائرل کیا گیا، کیوں کہ یہ لوگ پر اعتماد ہیں کہ کوئی بھی بیانیہ بناکر سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈا پھیلا سکتے ہیں ۔
ضلع کرم میں امن کی بحالی صوبائی حکومت اور سیاستدانوں کا کام:
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ضلع کرم کے علاقے پارا چنار میں قبائلی اور زمینی تنازعات کئی دہائیوں سے چل رہے ہیں، وہاں ہونے والے مسائل کو فرقہ وارانہ رنگ دیا گیا، تاکہ اصل معاملے کو حل نہ کیا جائے، اسے صوبائی حکومت اور مقامی سیاست دانوں نے حل کرنا ہے ، اتفاق رائے سے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے فرقہ وارانہ رنگ دینے کا مقصد خود کو انتشاری سیاست میں مصروف رکھنے کا وقت حاصل کرنا تھا، اس معاملے کو طوالت دینا افسوس ناک ہے، اللہ نہ کرے معاملہ حل کرنے میں تاخیر کی گئی تو مزید نقصان ہوسکتا ہے، اس لیے مقامی سیاست دان بر وقت مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کریں، فوج کو جو ذمہ داری دی جائے گی، اسے نبھائیں گے، یہ دہشتگردی کا مسئلہ نہیں ۔