فلم اور ڈرامے کا مقصد انٹرٹینمنٹ کیساتھ ساتھ لوگوں میں آگاہی پیدا کرنا، معاشرے میں بُرائی کی حوصلہ شکنی کرنا، اچھائی کا درس دینا،اپنی ثقافت سے روشناس کرانا،قوم کو جدت کی طرف لے کرجانا اور ادب سکھانا ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم پشتو فلموں کا جائزہ لیں تو بد قسمی سے وہ اس کے بر عکس ہیں ۔پشتو فلموں میں اچھے کنٹینٹ کی جگہ فحاشی اور عریانی پھیلائی جا رہی ہے،قتل و غارت ، شراب نوشی اور چرس کا استعمال دکھایا جاتا ہے۔ پشتون کو دنیا کے سامنے ایک جاہل قوم پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اچھائی کے بجائے معاشرے کو بُرائی کی طرف دھکیل دیا جا رہے ہے۔کیا یہ ہماری ثقافت ہے جو ہماری نئی نسل کو فلموں میں دکھائی جاتی ہے؟ نہیں بالکل نہیں۔پشتون قوم پانچ ہزار سالہ ثقافت رکھتی ہے جس کی بیشتر روایات اسلام کے مطابق ہی ہیں۔پشتو ثقافت میں حجرہ ،مہمان نوازی، پختون ولی،پگڑی،خواتین کی عزت،حیاء،جرگہ،احترام ، پناہ، موسیقی،غیرت اور بدلہ شامل ہیں۔پشتون معاشرے میں عورت کی بے پناہ عزت کی جاتی ہے۔ اگرتاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی جائے تو پشتون قوم ہمیشہ ایک امن پسند قوم رہی ہے لیکن جس نے بھی اس سے پنگا لیا ہے پھر اُس کا انجام بہت بُرا ہو اہے۔کیونکہ عزت اور وطن کے لیے یہ قوم اپنی جان تک قربان کردیتی ہے لیکن کسی کے ناپاک عزائم کو پورے ہونے نہیں دیتی۔
ایک قوم کی پہچان ان کی ثقافت سے ہوتی ہے اور جب تک ثقافت زندہ ہوتب تک قوم بھی زندہ رہتی ہے۔جب بھی کسی قوم پر دوسری قوم کی ثقافت نے یلغار کی ہے تو وہ قوم صفہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے مٹ گئی ہے۔آپ 1970 سے لیکر اب تک جتنے بھی پشتو فلمیں اور سی ڈیز ڈرامے بنے ہوئے ہیں وہ دیکھ لیں،اُس میں آپ کو فحاشی، عریانی، شراب، چرس،غلیظ ترین جملے،گھٹیا ترین حرکتیں،کھلے عام زنا،قتل و غارت ،مذہب اور ثقافت کی تضحیک کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ہماری 95 فیصد فلمیں صرف محبت پر بنی ہوئی ہیں، کیا ہمارے معاشرے میں سب سے بڑا مسئلہ محبت ہے؟اگر آپ پشتو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کے ذہن میں بے شمار سوالات پیدا ہوں گے۔جو کلچر پشتو فلموں میں پیش کیا جاتا ہے کیا یہ ہماری کلچر کا صحیح عکاسی کرتا ہے؟کیا شراب، چرس، زنا، فحش ڈانس، قتل اور گھٹیا الفاظ ہماری ثقافت کا حصہ ہیں؟کیا ہمارے معاشرے میں عورت کی عزت نیلام کی جاتی ہے؟نئی نسل پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟کیا کمزوریاں ہیں کہ معیاری فلمیں نہیں بنتیں؟حکومت کی طرف سے ابھی تک سنسر بورڈ نہیں بنا ہے ،حکومت کو اس حوالے سے کیا اقدامات اٹھانے چاہیئں؟شہریوں کو اس فحاشی کی روک تھام میں کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟
یہ سوالات جب میں نے معروف اینکر پرسن اورسوشیالوجسٹ مدثر حسین کے سامنے رکھے تو ان کاکہنا تھا۔جہاں تک معاشرے میں فلموں اور ڈراموں کا تعلق ہے تو جہاں پر ٹیکنالوجی ہو، ٹی وی اور انٹرنیٹ کی رسائی ہواور دیگر ذرائع مواصلات ہو تو معاشرے میں فلموں اور ڈراموں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے۔فلم اور ڈراموں کی ذریعے نہ صرف لوگوں کو تعلیم دی جاسکتی ہے بلکہ بہت سے سیاسی، معاشی، سماجی اور مذہب سے متعلق لوگوں میں آگاہی پیدا کی جا سکتی ہے۔جس طرح معاشرے میں مذہبی، سیاسی اور دیگر رہنماء سماجی تبدیلی میں کردار ادا کررہے ہیں اسی طرح فلم اور ٹی وی کا بھی اہم کردار ہوتاہے۔فلم کے ذریعے لوگوں کو بتایا جا سکتاہے کہ اگر آپ نے آج اپنے بچوں کی صیحح تربیت نہیں کی تو آنے والے وقتوں میں وہ اندھیرے راستوں کے مسافر بن سکتے ہیں۔
اگر میں پشتو فلموں اورسی ڈی ڈراموں کی بات کروں تو جو ثقافت پشتو فلموں میں پیش کی جارہی ہے وہ بالکل ہماری ثقافت کی عکاسی نہیں کرتی۔پشتون قوم کا ایک بہت بڑا کلچر ہے جس میں مہمان نوازی ہے، پختون ولی ہے،حجرہ ہے،حیاء ہے، پردہ ہے،احترام ہے اور شادی بیاہ کا ایک الگ انداز ہے لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری فلموں میں اس کو صحیح طریقے سے پیش نہیں کیا جاتا۔جو تصویر پشتو فلموں میں پیش کی جاتی ہے اس سے صر ف لوگ یہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خدانخواستہ پوری قوم غنڈہ ہے،شرابی ہے،جوار گر ہے ، زناکار ہے اور غلیظ ہے۔ہماری فلموں میں ہمارے معاشرے کی غلط تشریح ہورہی ہے۔فلم کے ذریعے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ جو فلموں میں ہے وہ ہماری ثقافت کا حصہ ہے اور پھر لوگ ان غلط راستوں کے مسافر بننے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔بات بات پر بندوق اٹھانا ،قتل وغارت کرنا اور غلیظ الفاظ کا استعمال کرنے سے بچے اور نوجوان نسل بُری طرح سے متاثر ہورہے ہیں کیونکہ بچوں اور نوجوانوں میں نئی چیزیں سیکھنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔پشتو فلموں میں قاتل اور بدمعاش کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور پھر بچے انہی ہیروز کو فالو کرتے ہیں۔ جس سے ان کے ذہین پر غلط اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ہماری فلموں میں مخالف کو برداشت کرنے کی بجائے قتل کرنا اور اس پر پھر فخر کرنے کا سبق دیا جاتا ہے۔اس کیساتھ ساتھ اگر ہم دیکھیں تو شادی ، عید اور دیگر مواقع پر بے دریغ فائرنگ ہوتی ہے جس سے سینکڑوں جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔موجودہ فلموں کے ذریعے معاشرے میں بُرائی کو فروغ دیا جا رہا ہے۔پشتو ن معاشرے میں عورت کو عزت کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن فلموں میں اسے عریاں کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ان کا جسم کھلے عام نیلام کیا جاتا ہے۔
فلموں میں کلاشنکوف کلچر کو غلط پیش کرنے سے نوجوانوں کے ذہنوں میں اس سے نفرت پید اہوجاتی ہے اور معاشرے میں بدامنی پھیلنے کی ایک وجہ بنتی ہے، اس کیساتھ ساتھ ہمارا جو ریجن ہے خانہ جنگی کا شکار ہے،یہاں بے روزگاری ہے،غربت ہے،جہالت ہے،ہمارے ہاں کچھ ایسی روایات ہیں جس کی وجہ سے ہم آ گے نہیں بڑ ھ پا رہے، ہماری لیڈر شپ نے آج تک کیا کردار ادا کیا ہے اور ہمارے معاشرے میں ملاح کا کیا کردار ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایسے بے شمار موضوعات ہیں جن پر فلمیں بننی چاہیئں۔جس سے لوگوں کو آگاہی ملے گی ۔
لیکن ہماری دو کمزوریاں ہیں جس کی وجہ سے معیاری فلمیں نہیں بنتی۔پہلے تو یہ ہے کہ ہمارے فلم ڈائریکٹر ، پروڈیوسر، رائٹر ، اداکار اور باقی فلم سے منسلک بیشتر لوگ نہ صرف ان پڑھ ہیں بلکہ غیر تربیت یافتہ بھی ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ پشتو فلموں اور سی ڈیز ڈراموں کو شوق سے دیکھنے والے بھی ان پڑھ ہیں۔جس کی فرمائش پر اس قسم کی فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے نہ فلم انڈسٹری کو سپانسرشپ ملتی ہے اور نہ کوئی سنسر بورڈ ہے۔حکومت کو احساس ہونا چاہئے کہ اس دور میں ہم ایک اہم میڈیم نظر انداز کر رہے ہیں ۔حکومت کو اچھے موضوعات کی فلمیں سپانسر کرنی چاہئیں اور سنسر بورڈ بنانا چاہئے۔
قارئین! جہاں تک گندہ گیر، بد معاش،بد عملہ،بنگی لالیہ،غوبل، ملنگ باچا،چرسی، جوارگر اورنواسے د شرابی وغیر ہ جیسی فلمی موضاعات ہیں تو وہاں ان فلموں میں غیر معیاری شاعری بھی ہے۔ جیسے گل پانڑہ کہتی ہے کہ‘‘ سمہ پتاسہ یم’’ تو شاہسوار بھی حسن یار کی تعریف میں کنجوسی نہیں کرتا اور سرعام بولتا ہے کہ ‘‘ سمہ امرسہ ئی جینئی’’ ۔اس قسم کے بے شمار گانے جیسے ‘‘ستا نرے ملا خکولی دہ، خودکشہ دھماکہ یم،شرابی یم شرابی ،جینی سپینہ مولی دہ’’وغیرہ وغیرہ جس میں نہ کوئی اچھا پیغا م ہوتا ہے، نہ کوئی مطلب اور نہ سننے میں اچھا لگتا ہے۔
مذکورہ اہم موضوع پر ہم نے پشتو زبان کے ادیب و شاعر ڈاکٹر ہمدرد یوسفزئی سے بھی بات اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔
آرٹ کو آسان الفاظ میں کسی معاشرے کا عکاس اور آ ئینہ کہا جاتا ہے،ڈرامہ بھی آرٹ اور ادب کی ایک صنف ہے اس لئے اس کا کردار مسلم ہے۔ آرٹ کی تاریخ میں فلم اورڈرامے سے اگر ایک طرف تفریح کے لئے کا م لیا گیا ہے تو دوسری طرف اس سے کہیں سیاسی، سماجی اور نظریاتی محاذوں پر بھی کام لیا گیا ہے۔انقلاب فرانس اور انقلاب روس میں آرٹ اور ادب کے کردار کو کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
جہاں تک پشتو فلموں میں کلچر کی غلط عکاسی کی بات ہے تو پشتو فلموں کی نصف صدی کی تاریخ ہمارے سامنے ہے اور ایک زمانہ تھا کہ محدود وسائل میں آدم خان درخانے، یوسف خان شیربانو،وربل،غیرت جیسی شاہکار فلمیں بنی تھیں ۔لیکن آج کل جو پشتو فلموں میں دکھایا جاتا ہے وہ قطاً ہماری ثقافت کا آئینہ دار نہیں۔پشتو فلموں میں عورت کے کردار کو بیسوی صدی کے اس نعرے کے مطابق دکھایا جاتا ہے کہ Women is symbol of sex جو مدر پدر آزاد معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔اس کیساتھ ساتھ شراب، چرس، فحش ڈانس اور غلیظ الفاظ کا استعمال بالکل پشتون ثقافت کا حصہ نہیں ہے، یہ فلموں کی حد تک ہی محدود ہے۔
جہاں تک پشتو فلموں میں غیر معیاری شاعری کی بات ہے تو یہ صرف پشتو فلموں تک محدود نہیں ہے۔انگریزی اور ہندوستانی فلموں میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے جو کسی حدتک فلمی گلیمراور معیشت کی ضرورت ہے۔ نوجوان نسل پراس قسم کی فلموں کے بہت مضر اثرات ہیں۔ان جیسی فضول فلموں کی بجائے اگر جدید سائنسی موضوعات کو فلموں میں جگہ دی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔اس کیساتھ ساتھ حکومت وقت کی بھی ذمہ داری ہے کہ ایک مضبوط سنسر بورڈ بنا لی جائے’’۔
پشتو فلموں ،سی ڈیز ڈراموں اور سٹیج شوز میں جاری فحاشی اور عریانی ،ڈائریکٹر ز، پروڈیوسر، ایکٹرز اور فلم سے منسلک تمام افراد کے اس گھناونی کاروبار ،نوجوان نسل پر اس کے اثرات اور خواتین کی عزتیں پامال کرنے کے بارے میں جب میں نے سوات سے تعلق رکھنے والی سوشل ایکٹیوسٹ نیلم ابرا ر چٹان سے ان کی رائے مانگی تو ان کا کچھ یو ں خیال تھا۔ ‘‘جو کلچر پشتو فلموں میں پیش کیا جا رہا ہے یہ نہ صرف ہمارے کلچر کاصحیح عکس پیش نہیں کر رہا ہے بلکہ ہمارے کلچر کو بدنام اور ہمارے کلچر کو انگریزوں اور ہندووں کے کلچر میں بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ فلموں میں جسموں کی نمائش کرنا ، شراب پینا ، خواتین کا بغیر دوپٹہ باہر آزاد گھومنا ، بات بات پر بندوق، چھری، پستول نکالنا ہمارا کلچر نہیں ہے۔ میں پوچھتی ہوں کیا ہمارے لوگوں کوپتہ بھی ہے کہ کلچر ہے کیا چیز؟ بندوق کب بنی ہے اور پشتون کب پیدا ہوا ہے جو ہم بندوق کو اپنا کلچر سمجھ رہے ہیں ۔لیکن ہم میں سے کچھ لوگوں نے خود اپنے آپ کو دنیا میں بدنام کر رکھا ہے اور اس میں جو خانہ پری تھی وہ پشتو فلموں کے ذریعے مکمل کی جارہی ہے۔ پشتون باعزت اور امن پسند قوم ہے۔
بعض لوگ کا خیال ہے کہ خواتین کو آزادی دینی چاہیے ۔بات درست ہے لیکن وہ آزادی کے نام پر ہمارے معصوم بچیوں کو گمراہ کر رہی ہیں۔ مختلف طریقوں سے کوشش کی جارہی ہے جس میں پشتو فلمیں سر فہرست ہیں ۔ کیا ہماری خواتین ساڑھیاں پہنتی ہیں؟ کیا وہ بغیر چادر لیے گھر سے باہر نکلتی ہیں ؟ نہیں! ہمارے کلچر نے ہمیں عزت دی ہے ۔ ہمارے اسلام نے ہمیں عزت دی ہے۔ ان بیہودہ فلموں سے خواتین اور مرد دونوں بُری طرح سے متاثر ہورہے ہیں اور آہستہ آہستہ دونوں اپنے مذہب اور کلچر سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ مرد بندوق کو اپنی غیرت سمجھ بیٹھا ہے اور خاتون سر سے دوپٹہ ہٹانے کو اپنا حق سمجھ رہی ہے۔ دونوں غلط ہیں لیکن ہماری آنکھوں پر انجان پٹی بندھی ہوئی ہے۔
پشتو فلموں میں کلہاڑی سے قتل کرنا، غیرت کے نام پر بہن ، بیوی کو قتل کرنا، خودکشی کرنا وغیرہ اس قسم کا پیغام دیا جا رہا ہے۔ 2015میں سوات میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات سامنے آئے تھے۔ جس میں ستر واقعات میں سامنے لائی تھی۔ دو واقعات غیرت کی نام پر ہوئے تھے جس میں ایک لڑکی کی ناک اور ایک کی ٹانگ کاٹ دی گئی تھی۔
اس کے علاوہ پشتو فلموں میں محبت کے سوا کوئی موضوع ہی نہیں ہے جس پر کوئی فلم بن جائے ۔ فلموں میں محبت کے خواب دکھا کر نئی نسل کو تباہ کیا جارہا ہے ۔ موبائل پر عاشقی ، انٹرنیٹ پر عاشقی یہاں تک پانچویں کلاس کے بچے بھی آج عاشق بن گئے ہیں اور یہ صرف او ر صرف ہماری فلموں کے وجہ سے ۔ کچھ مہینے پہلے کراچی میں ایک لڑکے اور لڑکی نے ایک دوسری کو گولی ماری تھی جو ایک انڈین فلم کا سین تھااور انہوں نے حقیقی زندگی میں اس کو اپنا لیا اور جان دے دی۔
میرے خیال میں لڑکیو ں کی تعلیم پر، امن اورکلچر پر، ایک شہری کے فرائض اور حقوق پر فلمیں بنانی چاہئے تا کہ لوگوں میں آگاہی آسکے۔
اپنے بچوں کو تعلیم او ر کھیل کھود میں مصروف رکھیں تا کہ وہ اس قسم کی فلموں سے بھی محفوظ ہوں اور صحت مندبھی رہیں ۔ٹی وی دیکھتے وقت اُنہیں اکیلے نہ بیٹھنے دیں۔
قارئین!اگر غیر معیاری فلموں کی وجہ ایک طرف حکومت کی لاپراوہی اور نظر اندازی ہے تو دوسری طرف فلم انڈسٹری سے منسلک بیشتر لوگ ان پڑھ اور جاہل ہیں۔چاہے وہ فلم ڈائریکٹر ہو، پروڈیوسرہو، رائٹر ہو یا اداکار ان میں سے بیشتر غیر تربیت یافتہ لوگ ہیں۔سوات میں آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو فارغ اوقات میں ٹینٹ سروس فراہم کرتے ہیں، نسوار بیچتے ہیں، سکولوں میں چنے بیچتے ہیں اور پارٹ ٹائم ڈراموں میں کام کرتے ہیں۔جس سے اچھی پراڈکٹ کی امید بے کار ہے۔اس کیساتھ ساتھ موسیقی سے وابستہ زیادہ تر لوگ بھی ایسے ہی ہیں ۔کچھ دن پہلے پشتو کی مشہور گلوکارہ وگمہ بی بی نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں کہا کہ ایک شخص جو میرے گانوں میں رباب بجاتا تھا آج کل وہ موزیک ڈائریکٹر ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو اس فحاشی اور عریانی کے جاری سیلاب کو قابو کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھانے چاہیئں۔ جس فلم یا ڈرامے میں ثقافت کا مذاق اُڑایا جاتا ہو عوام کو اس کا بالکل بائیکاٹ کرنا چاہئے اور معیاری فلموں کے لئے اس میدان میں تعلم یافتہ لوگوں کو آگے آنا چاہئے۔