اسلام آباد(رشید آفاق) بہت پہلے میں نے ایک نیوزسٹوری کی تھی کہ جب سے القاعدہ نے مسلمانوں کی خدمت شروع کی ہے،یا ان کے حقوق کے لئے آواز بلند کی ہے،کیا اس کی وجہ سے مسلمانوں کی تکالیف کم پڑ گئیں؟کشمیر،عراق،افغانستان اور فلسطین میں مسلمانوں پر مظالم کم ہوگئے ہیں؟اگر جواب نہیں میں ہے،اور مسلمانوں کے درد و تکالیف میں مزید اضافہ ہوا ہے، مسلمان پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں،پھر القاعدہ کو سوچنا چاہئے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے،اپنا راستہ اور طریقہ کار بدل دے،یتیم بچوں،بیواوں کی پرورش کرے،سی این این،بی بی سی کے معیار کا کوئی ادارہ بنائے جو مسلمانوں کے درد و تکالیف کو اجاگر کرے،وہ سٹوری القاعدہ کو بری لگی اور مجھے واجب القتل قرار دیدیا گیا،جس کی وجہ سے مجھے ملک چھوڑنا پڑا۔
ہماری ٹریفک پولیس روز رکشوں اور موٹر سائیکل سواروں پر ہر چوک میں یلغار کرکے جرمانے اور چالان ہول سیل کی شکل میں دے رہی ہے(ہر بندہ روز اپنا ٹارگٹ پوری کرتاہے یہ الگ کہانی ہے)شاہراہوں،چوراہوں پر لوگوں کو پھول اور شربت دے رہی ہے،تعلیمی اداروں میں قوانین کی آگاہی کی مہمات سر کرہی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پشاور میں اس اعلیٰ کارکردگی یا نمایاں طریقہ وارداتوں سے کیا پشاور میں ٹریفک کنٹرول ہوگئی؟ٹریفک کی روانی کا ازل سے شروع کردہ مسئلہ حل ہوا؟ڈرائیورز اور گاڑی مالکان پی ایچ ڈی کرگئے؟نہیں یہ جواب بھی نہیں میں ہی ہے بلکہ جو شعور،اخلاقیات اور قوانین کی آگاہی کی تعلیم ٹریفک پولیس کے اہلکار عموماَ َ کم پڑھے لکھے رکشہ ڈرائیوروں کو دے رہی ہے،ان کی سب سے زیادہ ضرورت خود ٹریفک پولیس کے کئی نہیں بلکہ بیشتراہلکاروں کوہے،رکشہ ڈرائیوروں اور موٹر سائیکل سواروں کو نجانے کن ہدایات اور قوانین کی روشنی میں باقاعدہ اسرائیلی تسلیم کرچکے ہیں،بعض اہلکاروں کی فرعونیت،رعب دبدبے اور چنگیزیت کا پارہ تو یہاں تک پہنچ چکاہے کہ کسی سے فون پر بات کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں،بعض اہلکاروں سے بات کرتے وقت اگر بتایا جائے کہ ہمارا تعلق میڈیا سے ہے بس پھر تو مذکورہ ڈرائیور کو جس کو چالان دینے کے لئے روکاگیا ہو اسے اپنی کتاب کے آخری پنے کےآخری چالان دیکر نجانے وہ کونسے جنم کا غصہ نکالتے ہیں۔
وہ اہلکار یہ نہیں سوچتے کہ یہ وہی میڈیا والا ہے جو تمہارے سینکڑوں عیبوں کو چھپاتے ہیں،تمہاری صومالیہ،ایتھوپیا پولیس جیسی کارکردگی کو بھی نیویارک پولیس کے ہم پلہ بناکر دنیا کے سامنے پیش کرتاہے،
مجھے ذاتی طور پر اعتراف ہے کہ اس فورس میں آج بھی بہت قابل فخر اور قابل تحسین آفیسرز موجود ہیں جو اس فورس کی آن ہیں،لیکن نمرودوں کی تعداد میں بھی اس فورس میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہورہاہے،اس فورس کو اپنا کھویا ہوا مورال اور مقام اگر واپس حاصل کرناہے تو پھر ان کو آفیشلی بتایا جائےکہ اس شہر کے باسیوں،رکشہ ڈرائیوروں اور صحافیوں کو دشمن کی بجائے اس شہر کے مظلوم لوگ سمجھ کر ان سے ان کی بساط کے مطابق ڈیل کیا کریں۔
گزشتہ دنوں ایک بہت ہی اعلیٰ ٹریفک پولیس آفیسر مجھے مذاق مذاق میں کہہ گیا کہ جب تمہاری کوئی رپورٹ ہمارے گروپ میں شئیر ہوتی ہے تو اس پر ایسے کمینٹس بھی آتے ہیں کہ(دشمن)
یہ رویہ ترک کرنا ہوگا؟
ورنہ کیمرے لیکر کم از کم یہ تو کرسکتے ہیں کہ جن رکشہ ڈرائیوروں کو اپنا ٹارگٹ پورا کرنے کے لئے یہ حضرات چالان دیتے ہیں ان کے بچے اس دن کتنی ادھوری روٹی کھاتے ہیں،وہ اس شہر،پورے ملک اور آدھی دنیا کو دکھا،بتا اور سمجھا سکتے ہیں،
ہم دشمن نہیں آپ کے دوست ہیں جو آپ کو بھائی سمجھ کر اپنی اصلاح کرنے کی تلقین کرتے ہیں وہ بھی مفت میں،
اس شہر پر اور اہل شہر پر روز نئی نئی عذابیں نازل ہو رہے ہیں۔خدارا اپنے آپ کو ان عذابوں میں تو مت ڈالو،
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔