دو گنڈاپور اور ایک مظلوم صوبہ؟
(رشیدآفاق) کسی گاوں میں دو دوست رہتے تھے ان میں ایک کسی آدمی کے اوپر الزام لگاتا تھا اور دوسرا اس کی گواہی دیتا تھا،فی الحال ہمارے صوبے کے ساتھ بھی کچھ ایسا چکر جاری ہے.
ایک صوبے کا وزیراعلی علی امین گنڈاپور صاحب ایک بیان داغتا ہے اور دوسرا گنڈاپور (اختر حیات گنڈاپور) ڈنڈا لیکر اس کی بیان کی ایسی کی تیسی کردیتاہے. مطلب اس بیان کی توثیق فرماتے ہیں اور وہ بھی اس انداز سے کہ کسی کو شک تو کیا بلکہ یہ یقین ہو کہ دونوں گنڈاپور اصل میں ایک ہی گنڈاپور ہے.
دونوں صاحبان اپنے سیاسی اور پولیسی دشمنوں سے چن چن کر بدلہ لینے کو ہی اپنا کام سمجھ بیٹھے ہیں،ایک وزیراعلی بن کر اپنے دشمنوں کو واٹ لگا لگا کر ٹھکانے لگانے میں مصروف ہیں اور دوسرا اپنے ساتھ رہنے والے پولیس آفیسرز کی یوں الٹی پولٹی کرنے میں لگے ہیں کہ خود موصوف اور پولیس آفیسرز کو سمجھ نہیں آرہاہے کہ ہمیں کہاں سے کہاں لیکر جایا جا رہا ہے؟
کیا یہ صوبہ،یہ پولیس،یہ علاقہ ان دونوں حضرات کو دیاگیاہے،یہاں پشاور جیسے کیپٹیل سٹی کو سنیچرز،بھتہ مافیا اور ڈاکووں کے حوالے کرکے یہاں کے سنئیر صحافیوں کو خاموش کردیا گیا ہے۔چوروں،بھتہ خوروں کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔
سنئیر صحافیوں کو پولیس کے گروپس تک سے بے دخل کردیاگیا ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے باونسری۔
سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کبوتر آخر کب تک آنکھیں بند کرکے خیر منائیگا؟
آخر کسی نے تو شہر کی زمہ داری لینی ہے،کوئی تو ہو جو اس شہر کے امن کی اور سکون کی بات کرئے۔
یا یوں ہی دو گنڈاپوروں کو اس شہر کے حوالے راکھا جائے گا۔
یوں ہی یہ شہر جلتا رہےگا۔
کیوں نا ہم اس شہر کو دو گنڈاپوروں کے حوالے کرکے اس شہر کو شہر ناپرسان بنائیں؟
کیا یہ شہر دو گنڈاپوروں کے باپ کی جاگیر ہے؟
یا اس شہر میں ہندکوان ہیں،افریدی ہیں،داوڑ،وزیر اور مہمند ہیں؟
لہذا ہمارے پیارے گنڈاپوروں، اس شہر پر،اس شہر کے باسیوں اور یہاں کے رہنے والے تمام لوگوں پر رحم کرکے
یہاں جیو اور جینے دو کی پالیسی کو اپناو۔
ہر مسلے کا حل مونچھوں کو تاو دینے سے نہیں حل ہوتا۔