آج ہم آپ کواٹھارویں صدی عیسوی کے ہندوستان کے ایک ایسے تاریخی لیکن خوفناک واقعے سے آگاہ کریں گے جو آج تک تحقیق و جستجو کا موضوع بنا ہوا ہے۔
یہ واقعہ ہے مئی 1783 کا،جب ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے قدم جما چکی تھی۔متحدہ ہندوستان کے صوبے بنگال کے ایک گاؤں منڈول گاؤت میں ایک عجیب و غریب بچہ پیدا ہوا۔ عجیب و غریب اس لیے کہ اس کے دو منہ تھے۔ بچے کی پیدائش میں مدد کرنے والی دائی نے یہ ہیبت ناک منظر دیکھتے ہی چیخ ماری اور بچے کو آگ میں پھینک دیا۔اس کے خیال میں یہ بچہ نہیں شیطان تھا۔ خوش قسمتی سے بچے کو زندہ بچا لیا گیا۔
دو منہ والے بچے کے ایک سر کے عین اوپر دوسرا سر تھا اور وہ بھی بالکل الٹا، جس سے بچہ مزید خوفناک نظر آتا تھا۔ دوسرے سر کے کان بالکل تڑے مڑے تھے، زبان چھوٹی تھی، اور نچلا جبڑابھی کافی چھوٹا تھا۔
یہاں سامنے آتی ہے معاشرے کی سفاکیت ایک تصویر۔ بچے کے والدین نے نوزائیدہ بچے کو پیسہ کمانے کا بہترین موقع سمجھا اور اپنے گاؤں سے کلکتہ چلے گئے جہاں انہوں نے اپنے دومنہ والے بچے کی نمائش لگانا شروع کر دی۔ بچے نے دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں کی توجہ حاصل کر لی اور والدین نے اس کی نمائش کر کے کافی دولت کمائی۔ جیسے ہی اس کی شہرت پورے ہندوستان میں پھیلی، امیر کبیر افراد اورسرکاری عہدیداروں نے بچے اور اس کے والدین کو نجی نمائشوں کے لیے اپنے گھروں میں مدعو کرنا شروع کر دیا، جہاں ان کے مہمان اس بچے کا قریب سے جائزہ لے سکتے تھے۔
بچے کے دونوں سر ایک دوسرے سے آزادانہ طور پر کام کرتے تھے۔ جب بچے کا ایک سر سو رہا ہوتا تو دوسرا جاگ رہا ہوتا تھا اور اس کی آنکھیں اس طرح حرکت کرتی تھیں جیسے اردگرد کا مشاہدہ کر رہی ہوں۔ دو منہ والا یہ بچہ چار سال تک زندہ رہا۔ ایک دن اس کی ماں اسے گھر میں اکیلا چھوڑ کر پانی لانے کے لیے باہر گئی۔ جب وہ واپس آئی تو بچہ مر چکا تھا، اسے انتہائی زہریلے کوبرا سانپ نے ڈس لیا تھا۔ بچے کی بدقسمتی یہیں ختم نہیں ہوئی، بہت سے ریسرچرز نے بچے کی لاش کو خریدنے کی پیشکش کی، لیکن والدین نے اس کی اجازت نہیں دی۔ بچے کوشہر سے باہر دریاکے قریب دفن کر دیاگیا۔منوں مٹی تلے جانے کے بعد بھی بدقسمتی نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔برصغیر کو لوٹنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس معصوم کی قبر کو بھی لوٹ لیا، کمپنی کے ایجنٹ مسٹر ڈینٹ نے بچے کی قبر کھودی اوربچے کی کھوپڑی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہی کیپٹن بکانن کے حوالے کر دی۔ کپتان کھوپڑی کو انگلینڈ لے آیا۔ بنگال کے دو منہ والے بچے کی کھوپڑی اب بھی لندن کے رائل کالج آف سرجنز کے میوزیم میں دیکھی جا سکتی ہے۔
جب بچے کے دونوں سروں پر تحقیق کی گئی تو یہ بات سامنے آئی کہ اس کے دو دماغ تھے۔ اٹھارویں صدی میں جب اس بچے کی پیدائش ہوئی تو اسے شیطان سمجھا گیا لیکن آج سائنس یہ بات ثابت کر چکی ہے کہ یہ ایک انتہائی نایاب بیماری ہے۔ پچاس لاکھ جڑواں بچوں میں سے کوئی ایک جوڑااس کا شکار ہوتا ہے۔