پشاور سے خالد خان کی خصوصی تحریر: ۔
ہمارا معاشرہ نائی کی ایک وسیع و عریض دکان ہے جہاں بانت بانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں۔ یہ مادر پدر آزاد دکان ہے جہاں جو جی میں آئے، کہتے جائیں اور کرتے جائیں۔ یہاں صرف ایک بات پر پابندی ہے اور وہ ہے خاموشی۔ یہاں ہر موضوع پر بات کرنے کی نہ صرف آزادی ہے بلکہ یہ لازمی امر بھی ہے۔ یہاں دنیا کے ہر موضوع پر دو ٹوک رائے دینا آپ کا بنیادی، انسانی، قانونی اور آئینی حق ہے۔ گویا یہاں سارے حقوق زبانی کلامی ہیں۔
مذہب، سیاست، معیشت، ادب، تاریخ اور بین الاقوامی امور یہاں کے من پسند مضامین برائے بحث و مباحثہ ہوتے ہیں۔ یہاں سے لال قلعہ دہلی پر سبز ہلالی پرچم بھی لہرایا جاتا ہے اور پاک چین دوستی کی اونچائی اور گہرائی کوہِ ہمالیہ تا گہرے سمندروں تک یہیں ناپی جاتی ہے۔ عالمی سیاست، معیشت، ایجادات، ادیانِ سماوی اور طاقت کے بین الاقوامی توازن پر یہاں سیر حاصل تبصرے کیے جاتے ہیں۔
یہی وہ جگہ ہے جہاں حجام مستقبلِ اسلام و مشرق، جوانانِ پاکستان کے حلیے تراشتے ہیں۔ سر سے داڑھی تک ارتقا کی با تصویر منظر کشی یہاں کی جاتی ہے۔ اگر ڈاکٹر عبدالقدیر آئے تو ہر دوسرا بندہ انہیں سکھانے کے لیے بے تاب نظر آئے گا کہ "ایٹم بم کیسے بنایا جاتا ہے”۔ آئن سٹائن اگر کہیں غلطی سے بال تراشوانے یہاں وارد ہوا تو کششِ ثقل کے ایسے سائنسی راز اس پر منکشف کروائے جائیں گے کہ بجائے دنیا کے، اس کا اپنا سر گھومنے لگے گا۔ نیوٹن کو تو دس لوگ کسی قریبی مدرسے میں درسِ نظامی پڑھنے کا مشورہ دینے کو تیار بیٹھے ہوں گے۔ ایڈیسن کو بلب جیسے فضول ایجاد پر وقت ضائع کرنے اور آخرت کو تاریک بنانے کے مداوے کے لیے شبِ جمعہ اور سہ روزہ لگانے کی پرزور دعوت ضرور دی جائے گی۔ اور تو اور، سارے رافیل جہاز بھی یہاں ہی گرائے جاتے ہیں۔
ہم بھی اسی دکان — معذرت چاہتا ہوں — سماج کا حصہ ہیں۔ مجھے بھی پورا حق حاصل ہے کہ میں حالیہ پیش کیے گئے بجٹ پر بات کروں، اگرچہ مجھے سو سے اوپر کی گنتی بھی نہیں آتی۔
الحمدللہ، اسلامی مساوات پر قائم پاکستان میں کوئی تقسیم نہیں ہے۔ نہ یہاں کوئی کافر اور مسلمان ہے، نہ شیعہ، سنی، دیوبندی اور بریلوی، اور نہ ہی کالا یا سرخ و سفید۔ نہ ہی یہاں کوئی سیاسی تقسیم ہے اور اس جھنڈے تلے ہم ایک ہیں: امیر اور غریب۔ آقا اور غلام۔ حکمران اور رعایا۔ یہاں انسان صرف دو طبقات میں تقسیم ہیں: امیر اور غریب۔
یہ امیروں کا ملک ہے اور امیروں نے امیروں کے لیے بنایا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ "امیر” کی ہجے اور املا "عامر” ہوگئی ہے اور اب عامر اور امیر باہم مل کر امر ہو گئے ہیں۔
بجٹ امیروں نے امیروں کے لیے بنایا ہے اور بہترین ہے۔ غریبوں کے لیے زہر پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے اور غریب غربا جب بھی اور جہاں بھی چاہیں یہ سستے داموں حاصل کر سکتے ہیں۔ اس بجٹ میں ریل کے سامنے لیٹنے پر بھی کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے اور غریب ریل پٹڑی کے ساتھ اور ریل پٹڑی کے عین اوپر بھی لیٹ سکتے ہیں۔ جب تک پاکستان کے دریاؤں میں پانی بہتا ہے، تو غریب پر کسی بھی دریا میں بال بچوں سمیت چھلانگ لگانے پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔ البتہ جس دن پاکستان کے دریا خشک ہوگئے تو دریا سے بھاری پتھر اٹھا کر سر پھوڑنے سے پہلے ہر خودکشی کرنے والے غریب پر اسی طرح لازم ہے کہ ہندوستان کو گالی نکالے، جس طرح سنیما ہال میں فلم شروع ہونے سے قبل قومی ترانے کے احترام میں کھڑا ہونا لازم ہوتا ہے۔
غریب کا تو قصہ تمام ہوا، اور خوب ہوا کہ صرف دو رنگ ہی بھلے لگتے ہیں: سفید یا کالا۔ اسی طرح دو ہی طبقے اچھے لگتے ہیں: امیر یا غریب۔ آنکھوں میں رنگینی بھرنے کے لیے دنیا میں مہذب ممالک کی کمی نہیں ہے، جہاں کے پاسپورٹ امراء کی جیبوں میں اور ان کی لوٹی ہوئی دولت وہاں کے بینکوں میں ہوتی ہے۔
البتہ ایک کانٹا شروع دن سے تھا جسے الحمدللہ امسال کے بجٹ میں نکالا گیا ہے۔ اور وہ کانٹا تھا مڈل کلاس۔ کباب میں ہڈی۔
بجٹ میں آئی ایم ایف کے تعاون سے مڈل کلاس کی نسل کشی کے پورے پورے انتظامات کیے گئے ہیں۔ اب نہ رہے گا بانس، اور نہ ہی بجے گی بانسری۔ چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکس، فائلر اور نان فائلر کا شکنجہ، بینک سے رقومات نکالنے پر ڈاکہ زنی، اور شمسی شیشوں پر غنڈہ ٹیکس — ایسے جامع اور مؤثر اقدامات ہیں کہ ان شاء اللہ العزیز اگلا بہار پاکستان میں مڈل کلاس کا خزاں ہوگا۔
خس کم، جہاں پاک۔
صرف اور صرف دو طبقات۔ امیر اور غریب۔
سرکاری ملازمین، جو دھینگا مشتی پر کمربستہ نظر آتے تھے، انہیں الفاظ کے گورکھ دھندے میں چاروں شانے چت گرایا گیا ہے۔ لیکن ابھی وہ گولی کھائے انسان کی طرح گرمی میں ہیں، درد کچھ وقت بعد محسوس ہوگا۔ انہیں ایک ہاتھ سے تو بہت کچھ دیا گیا ہے جس پر انہوں نے بھنگڑے ڈالے ہیں، مگر دوسرے ہاتھ سے ان سے بہت کچھ لیا گیا ہے جس پر وہ جلد یا بدیر نوحہ کناں ہوں گے۔
اس ہاتھ دے، اس ہاتھ لے
کیا خوب سودا نقد ہے۔