آفاقیات
پشاور سے رشید آفاق کی خصوصی تحریر: ۔
یہ ایک سال، چار مہینے اور تین دن پہلے کی بات ہے۔ اُس دن میں صبح معمول سے بھی پہلے جاگ گیا۔ اگرچہ میں ہمیشہ خود ہی جاگتا ہوں اور مجھے یاد نہیں کہ زندگی میں کبھی کسی نے مجھے جگایا ہو، مگر اُس دن کی صبح کچھ الگ تھی۔ دل گواہی دے رہا تھا کہ کچھ غیرمعمولی ہونے والا ہے، جیسے قیامت آ جائے یا قبر میں اُترنے کا وقت ہو۔
حسبِ معمول میں نے چرند و پرند کے لیے خوراک اور پانی رکھا، مگر دل بےحد بوجھل تھا۔ سوچا دفتر جاؤں یا نہیں؟ بالآخر دفتر فون کر کے چھٹی لے لی۔ اچانک پورے جسم میں درد کی ایک لہر سی اٹھی، جو جیسے مختلف زاویوں سے آ کر دل میں اُترتی رہی۔ سمجھ نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ کچھ سوچے بغیر ہلکا سا ناشتہ کیا اور سیدھا ہسپتال چلا گیا،جہاں امی جی پچھلے تیرہ دنوں سے داخل تھیں۔
جب ان سے ملا تو ہمیشہ کی طرح مسکرا کر میرا استقبال کیا۔ کہنے لگیں: “آگئے زامنی؟” میں نے ان کا ماتھا چوما اور کہا: “ہاں، آج سارا دن تمہارے ساتھ ہی رہوں گا۔” انہوں نے کہا: “نہیں، تم دفتر جاؤ۔” مگر میں نے انکار کیا۔
دو سال پہلے جب ہم نے انہیں ایل آر ایچ میں داخل کیا تھا، تو ڈسچارج کے وقت انہوں نے کہا تھا: “ان دنوں میں میں اپنی موت کی دعا کرتی رہی۔” میں نے حیرت سے پوچھا: “ایسا کیوں؟” بولیں: “جب تم دفتر سے تھکے ہارے میرے لیے آتے، تو میرا دل کرتا کہ مر جاؤں، تاکہ تمہیں یہ تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔”
وہ واقعی ایک خوددار عورت تھیں۔ اُس دن ڈاکٹروں نے کہا کہ امی کو شام تک گھر بھیجا جا سکتا ہے۔ ہم سب بہت خوش ہوئے۔ عزیز جان صدقے کے لیے بکرے لے آئے،لیکن پھر اسی ڈاکٹر نے کہا کہ نہیں تین چار دن اسے مزید ہسپتال میں رہنا ہوگا،ہمارے لئے یہ مشکل تھا کہ اب اسے کون بتائیگا کہ مزید کچھ دن یہاں رہینگے،ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ظفر آفریدی کو میں نے صورتحال بتائی تو انہوں نے دس بارہ ڈاکٹروں کو بلایا، وہ خود بھی آگئے پھر ڈاکٹروں کی مشاورت سے ہم اسے گھر لائے،راستے میں میری بیوی نے بتایا کہ دوائی بھی ساتھ کسی میڈیکل سٹور سے لے لو،میں نے کہا کہ وہ بعد میں،میں گھر سے آکر لے لونگا میں نہیں چاہتا کہ وہ ایمبولینس میں انتظار کریں،
جب شام کو انہیں گھر لایا گیا تو گھر کا ہر فرد خوشی سے جھوم اٹھا۔ پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں، سب سے ملیں۔ میں نے انہیں اپنے ہاتھوں سے دوا اور کھانا دیا۔ وہ بولیں: “تم اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو، سارا دن تھکے ہوئے ہو۔”
رات دیر تک میں ان کے ساتھ بیٹھا رہا۔ ساڑھے چار بجے انہوں نے میرے تیسرے بھائی گوہر جان کو کہا کہ جا کر سو جاؤ۔ جب وہ نہ مانے، تو انہیں غصے سے کہا: “باہر جاؤ اور سو جاؤ۔” گویا انہیں معلوم تھا کہ وہ آخری لمحے میں ہیں، اور وہ نہیں چاہتی تھیں کہ گوہر جان اُن کے سامنے یہ منظر دیکھے۔
گوہر جان بعد میں کہتا تھا کہ وہ کمرے کے دروازے کے قریب ہی بیٹھا رہا۔ چند منٹ تک وہ کلمہ دہراتی رہیں اور پھر خاموش ہو گئیں۔
جب میں دوڑ کر اُن کے کمرے میں گیا، تو ان کی روح پرواز کر چکی تھی،
پھر اگلا مرحلہ مجھے بتانے کا تھا،ڈاکٹروں نے بتایا تھا کہ اگر ان کی منہ یا ناک سے خون بہنا شروع ہوجائے تو پھر ہسپتال لانا ورنہ ایک ہفتے کے بعد ہی لانا،
میری ایک سسٹر نے آکر مجھے بتایا کہ عزیز جان تمہیں ایک منٹ میں نیچے بلارہاہے اور میں آدھے منٹ میں امی جان کے کمرے میں پہنچا،مجھے لگا کہ وہ تکلیف میں ہیں لیکن پھر اچانک ان کا رنگ مجھے بہت پیلا لگا ان کی جسم کو ہاتھ لگایا تو وہ بہت ٹھنڈا تھا اور مجھے ایسا لگا جیسے جنوری کے اس مہینے میں کسی نے مجھے ہمالیہ میں گرایا ہے،میرا وجود سن ہوگیا،
مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے مجھے جہنم میں دھکیل دیا ہو، یا جیسے میرے جسم میں آگ بھر دی ہو۔ میں ان کی چارپائی کے ساتھ گر گیا۔ تب جانا کہ وقت سے پہلے قیامت کیسے آتی ہے۔
میں یقین ہی نہیں کر پا رہا تھا کہ وہ ہستی، جس نے مجھے زندگی دی، جینا سکھایا،اب اس دنیا میں نہیں رہی۔
وہ خوش نصیب تھیں کہ اُن کے تمام بچے اور عزیز اُن کے ساتھ تھے۔ اُنہوں نے اپنے ہی گھر میں، اپنی اولاد کے درمیان، سکون سے آخری سانس لی۔ اور میں… جیسے اس دن مر گیا۔
لوگ تعزیت کے لیے آتے رہے، دعائیں دیتے رہے، مگر میرے اندر کا انسان شاید اسی دن دفن ہو چکا تھا۔ اب کبھی کبھی لگتا ہے کہ میں سانس تو لے رہا ہوں،لیکن صرف سانس لینا ہی تو زندگی نہیں ہے،سانس تو درخت بھی لیتے ہیں، اپنی اپنی جگہ منجمد کھڑے۔ میں بھی ویسا ہی ہوں۔
زندگی اور اس سے جڑی ساری رعنائیاں ہم سے رخصت ہو چکی ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ امین