چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے وفاقی حکومت کو جارحانہ انداز اختیار کرنے سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ حالات جس نہج پر پہنچ چکے سب کو مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پنجاب الیکشن فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی اپیل پر سماعت کی۔ دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو محاطب کرتے ہوئے کہا کہ جارحانہ مزاجی کسی کی مدد نہیں کرتی.
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ ریویو ایکٹ اب قانون بن چکا ہے، اب نظرثانی اپیل فیصلہ دینے والے بنچ سے بڑا بنچ ہی سنے گا اور نئے ایکٹ کے تحت نظرثانی کا دائرہ اختیار اپیل جیسا ہی ہوگا، اب نظرثانی اپیل فیصلہ دینے والے بنچ سے بڑا بنچ ہی سنے گا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ تو بڑا ہی دلچسپ معاملہ ہوگیا، یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے بنیادی حق کو بھی دیکھتی ہے، آپ اس سے متعلق حکومت سے ہدایت لے لیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جمعرات کو دوسرے کیس میں عدالت بیٹھے گی، ہم چاہتے ہیں دوسرے فریق کوبھی اس قانون کاپتہ چلے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دوسرے فریق کو اس نئے قانون کاپتہ ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج علی ظفر نظر نہیں آئے لیکن انہیں سینیٹ سےعلم تو ہوگیا ہوگا۔
چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ عدالت کا ذہن کسی قانون کوختم کرنے کا نہیں، اب ہم یہ قانون کیوں توڑیں، صرف عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کریں گے۔ عدالتی اصلاحات کیس جمعرات کوسنیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جتنے کمیشن بنتے رہے ان میں چیف جسٹس کے نامزد لوگ شامل ہوئے، عدالتی روایات کو ختم نہ کریں۔ معاملات کو خفیہ نہیں رکھا جانا چاہئے، آپ کے چیف جسٹس پر تحفظات تھے ، اسے تاریخ کا حادثہ کہہ لیں مگر چیف جسٹس ایک ہی ہوتا ہے۔ چیف جسٹس کے اختیارات قائم مقام ہی استعمال کر سکتاہے، ماضی میں چیف جسٹس کمیشن کیلئے جج نامزد کرتا تھا اور جج نامزد ہونے کے بعد حکومت ان کا نوٹیفکیشن کرتی تھی۔درست طرز عمل اختیار کرنے کی کوشش کریں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد سلور لائننگ تلاش کریں، آپس میں فاصلے کم کریں، سسٹم میں توازن اور امن لے کر آئیں۔ درست راستے کا انتخاب کریں۔بعد ازاں الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل پر سماعت ملتوی کردی گئی۔