کوئٹہ: بلوچستان کے سرکردہ قبائلی عمائدین نے قبائلی عمائدین نے ناراض بلوچوں کو ہتھیار پھینک کر بات چیت کی دعوت دے دی۔ انہوں نے بلوچستان کے مسلح افراد سے اسلحہ پھینکنے کی اپیل کی ہے۔ مسلح جدوجہد ترک کر کے قومی دھارے میں شامل ہونے والے سابق ریاست مخالف عسکریت پسندوں اور قبائلی عمائدین نے بھی ناراض بلوچوں کو ہتھیار پھینکنے کی صورت میں بات چیت کی دعوت دے دی۔
بلوچستان میں منعقد جرگے سے خطاب کرتے ہوئے گلزار امام شمبے نے کہا کہ پندرہ سال تک مسلح جدوجہد کی تاہم اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بلوچستان مسائل کا حل سیاسی بات چیت کے ذریعے ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلح جدوجہد کرنے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اسلحہ پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہوں اور اپنے صوبے و قوم کی خدمت کریں کیونکہ اس کے بغیر کوئی اور بحالی کا راستہ نہیں ہے۔
جرگے سے خطاب کرتے ہوئے نگراں صوبائی وزیر میر جمال رئیسانی نے کہا کہ میں شہداء کی فیملی سے ہوں اور ہمارے خاندان نے ملک کے لئے جانی قربانیاں پیش کی ہیں اور ہم اس پر فخر کرتے ہیں۔
سردار عمر خان گورگیج نے سفارش کی کہ مقامی سطح کے چھوٹے تنازعات کو مقامی سطح پر حل کرکے امن کے فروغ کو یقینی بنایا جائے جبکہ نواب محمد خان شاہوانی نے کہا کہ بلوچستان میں پائیدار قیام امن کیلئے حکومت اور قبائلی شخصیات کے درمیان اعتماد کی بحالی ضروری ہے۔
نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان علی مردان خان ڈومکی نے کہا کہ معتبرین کے ذریعے قبائلی جھگڑوں کے خاتمے کیلئے کوششیں تیز کی جاسکتی ہیں، بلوچستان دیرینہ قبائلی جھگڑوں کی لپیٹ میں ہے۔
قبائلی عمائدین نے ایک بار پھر ناراض بلوچوں کو بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ ’ درپیش مسائل کا مل بیٹھ کر حل نکالا جا سکتا ہے، مستقبل میں بلوچستان میں پائیدار قیام امن کیلئے کوششیں تیز کی جائیں گی‘۔