کسٹم انٹیلی جنس رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے پاکستان کو غیر معمولی مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا اور افغان امپورٹس اسمگل ہو کر پاکستان میں ہی فروخت ہوتی رہیں۔ کسٹمزحکام کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 25 کروڑ کے مقابل افغانستان کی صرف 5 کروڑ آبادی کیلئے پاکستان کے راستے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کئی گنا زیادہ ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی درآمدی قدر کے اعداد و شمار پاکستان کے مقابلے میں حیران کن زیادہ ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2022-23 میں پاکستان نے 84 ملین کے اور افغانستان کیلئے 404 ملین ڈالرز کے ٹائرامپورٹ ہوئے۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں بلیک ٹی کی کھپت ہی نہیں لیکن گزشتہ مالی سال 89 ملین ڈالر کی چائے امپورٹ ہوئی، اس کے علاوہ رواں مالی سال پاکستان 83 ملین ڈالرز کا فیبرک اور 12 ملین ڈالر کے ٹائر امپورٹ کرسکا جبکہ افغانستان کیلئے چند ماہ میں 440 ملین ڈالر کا فیبرک اور 92 ملین ڈالر کے ٹائر امپورٹ ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق مالی سال 2021-22 میں پاکستان نے 492 ملین ڈالر کا فیبرک، 225 ملین ڈالر کے ٹائر امپورٹ کیے، اسی سال افغانستان کیلئے 1416 ملین ڈالر کا فیبرک اور 235 ملین ڈالر کے ٹائرز امپورٹ ہوئے۔ انٹیلی جنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درحقیقت افغان امپورٹس اسمگل ہو کر پاکستان میں ہی فروخت ہوتی رہیں، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے پاکستان کو غیر معمولی مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔
کسٹم انٹیلی جنس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ انتہائی تلخ فیصلے اور سخت ترین اقدامات کرنے کے بعد صورتحال بہت مثبت نظر آرہی ہے، افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرز درحقیقت پاکستان میں ہی کھلتے رہے، افغان ٹریڈ کا سامان افغانستان سے اسمگل ہوکر پاکستان بھر میں فروخت ہوتا رہا اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ پالیسی پاکستان کی معاشی تباہی اور بربادی کا سبب بنا۔