امریکا کے کانگریس اراکین کی جانب سے عمران خان کی رہائی کے لیے ایک کے بعد ایک خط لکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ فلسطین کے مسئلے پر امریکی موقف اور اس کی انسانی حقوق کے حوالے سے پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے یہ انتہائی غیر معمولی ہے کہ امریکا کے دونوں بڑی جماعتوں (ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس) کے اراکین یک آواز ہو کر عمران خان کے حق میں بیانات دے رہے ہیں اور ان کی فوری رہائی کے لیے مہم چلائے ہوئے ہیں۔
یقیناً اس میں کچھ نہ کچھ ایسا ہے جس نے امریکی کانگریس کے ارکان کو اس قدر متحرک کر دیا ہے۔ یہ کوئی عام سیاسی یا سفارتی تعلقات نہیں ہیں جو اتنی شدت کے ساتھ ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ اس معاملے میں ایک گہری حقیقت چھپی ہوئی ہے جس کا تجزیہ کرنا انتہائی ضروری ہے۔
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور امریکا کی پالیسی
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بالخصوص امریکی اور چین کے درمیان جیو اسٹریٹیجک مقابلے میں دنیا کے لیے ایک کھلا راز ہے۔ پاکستان کی سرزمین ایٹمی صلاحیت اور اس کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت امریکی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ عمران خان کو امریکا کی پالیسیوں کے مطابق چلانے کا ایک اہم عنصر یہی جغرافیائی اور اسٹریٹجک اہمیت ہو سکتی ہے۔
عمران خان اور امریکی سیاستدانوں کے درمیان وعدے
اگر ہم عمران خان کی سیاست کے دوران کی جانے والی باتوں اور ان کے بیانات پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے ایسے اشارات ملتے ہیں جو بتاتے ہیں کہ خان نے امریکا کے ساتھ کچھ ایسے وعدے کیے ہیں جو امریکا کے مفاد میں ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے حوالے سے یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ عمران خان نے امریکی حکام سے وعدہ کیا تھا کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کو مزید ترقی نہیں دے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ کشمیر کے حوالے سے بھی عمران خان نے بھارتی حکومت کے ساتھ کئی معاملات پر بات کی تھی۔ کشمیر کو بھارت کے حوالے کرنے کے وعدے کے بعد اب امریکا یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام میں کسی قسم کی کمی کی جائے تاکہ اس کے اثرات عالمی سطح پر کم سے کم ہوں۔
امریکی کانگریس کی پوزیشن: کیا ہے اس کے پیچھے؟
امریکی کانگریس کے اراکین کی جانب سے عمران خان کے حق میں جاری مہم اور ان کے لیے خط لکھنا ایک نیا رجحان ہے جو واضح طور پر امریکی مفادات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ امریکا میں سیاست کے دونوں بڑے دھڑے (ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس) اس میں یکساں طور پر شامل ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
امریکا کے سیاستدانوں کا یہ متحرک رویہ اس بات کا غماز ہے کہ عمران خان کے ساتھ کوئی بڑا معاہدہ یا وعدہ ہے جس کی تکمیل کے لیے انہیں دوبارہ اقتدار میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ عمران خان کی رہائی کے پیچھے ایک بڑی اسٹریٹجک ضرورت ہے جو امریکا کے عالمی مفادات سے جڑی ہوئی ہے۔
اگر ہم اس تمام معاملے کو ایک وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اور اس کے جغرافیائی مقام کا امریکی مفادات پر گہرا اثر ہے۔ عمران خان کی رہائی کی مہم دراصل اس بات کا حصہ ہے کہ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرے، اور اس کے لیے عمران خان کی قیادت میں پاکستان کو ایک نئی سمت میں ڈالنے کی ضرورت ہے۔
لہذا، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکا کی سیاست میں عمران خان کا کردار ایک اہم پہلو بن چکا ہے، جس کے ذریعے امریکا اپنے جیو اسٹریٹیجک مفادات کی تکمیل کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سلسلہ صرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے وسیع تر عالمی اثرات بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔