اسلام آباد سے افضل شاہ یوسفزئی کی خصوصی تحریر: ۔
آج جب عالمی میڈیا میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ نائیجیریا نے اپنا تمام آئی ایم ایف قرضہ ادا کر دیا ہے، تو دل میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا پاکستان بھی ایسا کر سکتا ہے؟
کیا ہم بھی ایک دن یہ خوشخبری سن سکیں گے کہ ہمارا ملک (آٓئی ایم ایف )عالمی مالیاتی اداروں کی بیساکھیوں کے بغیر کھڑا ہو چکا ہے؟ یہ محض ایک خواب نہیں، بلکہ ایک حقیقت بھی بن سکتی ہے ، اگر ہم بطور قوم کچھ بنیادی فیصلے لینے کی ہمت کریں ۔ تو ہم بھی نائجییریا کی طرح آئی ایم ایف سے جان چھڑا سکتے ہیں ۔
نائیجیریا کی کہانی ہمیں ایک سبق دیتی ہے۔ یہ وہ ملک ہے جو ماضی میں معاشی بدانتظامی، کرپشن، اور غیرمستحکم مالی پالیسیوں کا شکار رہا۔ لیکن جب 2020 میں کورونا وبا نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا اور نائیجیریا نے آئی ایم ایف سے 3.4 ارب ڈالر کا قرض لیا، تو اُس وقت کسی نے نہیں سوچا تھا کہ صرف پانچ برسوں میں یہ ملک وہ قرض مکمل طور پر واپس کر دے گا ، وہ بھی مرحلہ وار، باقاعدگی اور نرمی کے ساتھ ۔
سوال یہ ہے کہ نائیجیریا نے ایسا کیا کیا جو ہم نہیں کر پا رہے؟ وہاں کی قیادت نے اپنے عوام کو اعتماد میں لیا، سبسڈی پر نظرثانی کی، مالیاتی اصلاحات کیں اور معیشت کو دستاویزی شکل دی ۔ انہوں نے یہ بھی سمجھا کہ وقتی سیاسی فائدہ لینے کے لیے طویل مدتی مالی پالیسیوں کو قربان کرنا، مستقبل کی نسلوں کے ساتھ زیادتی ہے ۔
اب آئیے پاکستان کی طرف۔ ہمارے ہاں قرض لینا تو گویا ایک حکومتی روایت بن چکی ہے۔ نئی حکومت آتی ہے، نئی شرائط پر نیا قرض لیتی ہے، اور پرانے قرض کو سود سمیت عوام کے کندھوں پر ڈال دیتی ہے۔ ہم نے یہ تک سن رکھا ہے کہ “آئی ایم ایف کے بغیر تو پاکستان نہیں چل سکتا”۔ اگر نائیجیریا جیسا ملک اس غلط فہمی سے نکل سکتا ہے، تو پاکستان کیوں نہیں؟
لیکن یہ تب ہوگا جب ہم خود احتسابی کریں۔ کیا ہم ٹیکس ادا کرتے ہیں؟ کیا ہم بجلی چوری بند کرنے پر آمادہ ہیں؟ کیا ہم اپنے ووٹ سے ایسے لوگوں کو چنتے ہیں جو معیشت کو سنبھال سکیں؟ جب تک ہم یہ نہیں کریں گے، تب تک آئی ایم ایف کے دفاتر ہمارے وزرائے خزانہ کی زیارت گاہیں بنے رہیں گے ۔
آزادی صرف سیاسی نہیں ہوتی، معاشی آزادی اس سے کہیں زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اور یہ آزادی کسی ایک فرد یا حکومت کی ذمہ داری نہیں، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔
تو جی ہاں، پاکستان بھی نائیجیریا کی طرح آزاد ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ہمیں نعرے نہیں، فیصلے کرنے ہوں گے۔ کڑوے، مشکل، مگر ضروری فیصلے ۔