پاکستان بھی کسی عجوبے سے کم نہیں ۔ اگر مرزا غالب کے اس شہرۂ آفاق شعر کی عملی تفسیر دیکھنی ہو تو پاکستان اس پر پورا اترتا ہے:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
حب الوطنی کا مفہوم مہذب دنیا کے اکثر لوگ نہیں جانتے ۔ جیسے جاپانی جھوٹ کے تصور سے ناآشنا ہیں، اسی طرح اگر آپ کسی مہذب ملک کے شہری سے پوچھیں کہ کیا آپ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں تو ممکن ہے وہ آپ کو کسی دماغی ہسپتال کا پتا لکھ دے ۔
دیگر ملکوں میں کروڑوں میں شاید ایک غدار نکل آئے، مگر ہمارے ہاں گویا پچیس کروڑ کے پچیس کروڑ ہی دیش دروہی ہیں ۔ ایسا ریاست سمجھتی ہے اور شاید میں بھی یہی تصور کرتا ہوں ۔
اگر ہم میں سے ہر شخص ایک لمحے کے لیے اپنے گریبان میں جھانکے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہ اعتراف کرے:
ہم واقعی محبِ وطن نہیں ہیں ۔
وجہ بہت واضح ہے، ہم میں سے ہر کوئی کسی نہ کسی حد تک، کسی نہ کسی موقع پر بےایمانی کرتا ہے ۔ آپ کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتے ہوں، اگر آپ ایک لمحے کے لیے بھی اپنی ذمے داری میں خیانت کرتے ہیں تو آپ خائن ہیں، صادق اور امین نہیں ہیں، محبِ وطن اور ایماندار نہیں ہیں ۔
جب آپ یہ سب کچھ نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟ یقیناً آپ غدار ہیں ۔
بالفاظِ دیگر، آپ محبِ وطن نہیں ہیں ۔
معاشرہ کیا ہے؟ افراد کا مجموعہ ۔
اور فرد کون ہے؟ ہم میں سے ہر ایک ۔
تو پھر ہم بحیثیتِ مجموعی محبِ وطن کیوں نہیں؟
ہمارے ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں ۔ قانون کا احترام نہیں ۔ کیوں؟ کیونکہ قانون سب کے لیے برابر نہیں ۔ جہاں قانون نہ ہو، وہاں لاقانونیت اپنا ڈیرہ ڈالتی ہے ۔ پھر حرام خوری، سفارش، رشوت، اقربا پروری، جرائم اور وطن فروشی جرم نہیں رہتے، بلکہ یہ اعمالِ خبیثہ جتنے زیادہ ہوں، انسان اتنا ہی خاص و ممتاز ٹھہرتا ہے ۔
ہمارے ہاں سماجی مقام رکھنے والے حرام خوروں اور جرائم پیشہ افراد سے کوئی لاتعلقی اختیار نہیں کرتا ۔ الٹا سماجی تعلقات ان کے ناجائز اعمال کو قبولیت کی سند دیتے ہیں ۔ دوسری طرف، ایک اصول پسند اور شریف عام آدمی کا کوئی سلام لینے کا بھی روادار نہیں ہوتا ۔
یوں ہمارے معاشرے میں جو جتنا بڑا مجرم اور ظالم ہو، اس کا مقام اتنا ہی بلند ہوتا ہے ۔
کہا جاتا ہے ہر کامیابی کے پیچھے کوئی نہ کوئی جرم ہوتا ہے ۔
اسی طرح ہماری ریاست کی تعمیر کی پہلی اینٹ ہی غلط رکھی گئی تھی ۔ اب اگر اس عمارت کو ثریا تک بھی بلند کیا جائے، تو اس میں بنیادی کجی باقی رہے گی ۔
موجودہ نظام، جو سیاسی اشرافیہ، اعلیٰ سول افسر شاہی، مقننہ، عدلیہ، مذہبی اثر پذیروں، درباری اہلِ فکر و نظر اور بعض نادیدہ قوتوں پر مشتمل ہے، انہی کے فائدے کے لیے کام کرتا ہے ۔ بھلا وہ اس نظام کو کیوں بدلیں گے؟ وہ کیوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے؟ ان کی تو پوری کوشش یہی ہوگی کہ یہ نظام تاقیامت قائم و دائم رہے ۔
اس کے لیے وہ ہمیشہ عام لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہیں گے ۔ کبھی ایک ازم، کبھی دوسرا ازم لے آئیں گے ۔
لوگوں کو اس قدر مایوس اور شکست خوردہ کر دیں گے کہ وہ اپنے بگڑتے حالات کو تقدیر اور اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیں ۔
عام آدمی کو روزمرہ کی بنیادی ضروریات میں ایسا الجھا دیں گے کہ وہ موت کو زندگی کی سب سے بڑی خوشی اور کامیابی سمجھے ۔
اگر کبھی عام لوگوں میں کوئی آواز اٹھتی بھی ہے، اور وہ آواز توانا بھی ہوتی ہے، تو حاکم اشرافیہ اسے گدھوں کے اصول کے مطابق دبا دیتی ہے ۔
گدھ مردار میں چونچ ڈال کر کھاتے رہتے ہیں اور الٹیاں کرتے رہتے ہیں ۔
جب کوئی نیا گدھ آتا ہے اور اسے چونچ ڈالنے کی جگہ نہیں ملتی تو وہ شور مچاتا ہے ۔
سب گدھ تھوڑا سرک کر اسے جگہ دیتے ہیں اور پھر وہ بھی مردار کھانے میں لگ جاتا ہے ۔
یوں سب کے سب پھر شانتی میں آ جاتے ہیں ۔
ہمارے ملک کے حاکم گدھ ہیں، اور جو آوازیں بلند ہوتی ہیں وہ انقلابی نہیں بلکہ صرف اپنی چونچ کے لیے جگہ مانگنے کی صدائیں ہیں ۔
جب تک اجتماعی شعور پیدا نہیں ہوگا، یہی کچھ چلتا رہے گا ۔
اجتماعی شعور کے لیے سب سے پہلے ہمیں پرانے نظریات اور عقائد سے نکلنا ہوگا ۔ دل کے کعبے میں سجے بت توڑنے ہوں گے ۔ ہر بت کو پاش پاش کرنے کے بعد صرف ایک بت تراشنا ہوگا ۔
اور وہ بت ہوگا عوامی راج کا بت ۔
ہم جو خلیاتی، تاریخی اور جبلّتی طور پر ایک غلام قوم ہیں، کیا ہم ایسا کر سکیں گے؟
انقلابات تو دنیا سے رخصت لے چکے ۔
ارتقا بذاتِ خود زوال کا شکار ہے ۔
ارتقا کا پہیہ آگے کے بجائے پیچھے کی طرف چل پڑا ہے ۔
تو…؟
امید پر دنیا قائم ہے ۔
اگر کوئی ڈیپ سٹیٹ واقعی موجود ہے اور وہ پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست کے طور پر آگے لے جانا چاہتی ہے تو یہی وقت ہے کہ پاکستان کو صحیح سمت میں ڈال دے ۔
انقلابی قانون سازی کرے، مکمل ادارہ جاتی اصلاحات کرے اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنائے ۔
یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ۔
دنیا کے کسی بھی مہذب، کامیاب اور ترقی یافتہ ملک کا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ اٹھا کر جوں کا توں نافذ کر دیں اور نتائج دیکھ لیں ۔
جب تک پاکستان کو عام آدمی کا پاکستان نہیں بنایا جائے گا، حب الوطنی پیدا نہیں ہوگی ۔
غدار پیدا ہوتے رہیں گے ۔
محب وطن پیدا کرنے کا واحد راستہ عمل ہے، زبردستی نہیں۔
عوام کا پاکستان چلے گا؛ زبردستی کا پاکستان نہیں ۔