Close Menu
اخبارِخیبرپشاور
    مفید لنکس
    • پښتو خبرونه
    • انگریزی خبریں
    • ہم سے رابطہ کریں
    Facebook X (Twitter) Instagram
    جمعرات, اکتوبر 9, 2025
    • ہم سے رابطہ کریں
    بریکنگ نیوز
    • پاکستان کی ہوم سیریز میں جنوبی افریقہ کو سپن جال میں پھنسانے کی تیاری، آصف آفریدی بھی سکواڈ کا حصہ
    • علی امین گنڈا پور مستعفی، سہیل آفریدی نئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نامزد
    • بھارت کسی بھی’’نئے نارمل‘‘ کا مقابلہ ایک نئے، تیز اور مؤثر جوابی نارمل سے کیا جائے گا، فیلڈ مارشل عاصم منیر
    • پاکستان میں 8 اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کے 20 برس مکمل، خوفناک یادیں آج بھی ذہنوں پر نقش
    • پولیس کی نئی کمان، نئی ذمہ داریاں،نیا روپ اور آدم خان!
    • اورکزئی میں آپریشن، 19 دہشتگرد ہلاک، لیفٹیننٹ کرنل اور میجر سمیت 11 جوان شہید
    • ماسکو فارمیٹ: پاکستان، بھارت، چین اور ایران کا افغانستان کی صورتحال پر غور
    • پاکستان سميت دنیا بھر میں رواں سال کے پہلے سُپر مون کا دلکش نظارہ
    Facebook X (Twitter) RSS
    اخبارِخیبرپشاوراخبارِخیبرپشاور
    پښتو خبرونه انگریزی خبریں
    • صفحہ اول
    • اہم خبریں
    • قومی خبریں
    • بلوچستان
    • خیبرپختونخواہ
    • شوبز
    • کھیل
    • دلچسپ و عجیب
    • بلاگ
    اخبارِخیبرپشاور
    آپ پر ہیں:Home » انتہا پسندی اور دہشتگردی کی وجوہات !
    بلاگ

    انتہا پسندی اور دہشتگردی کی وجوہات !

    اگست 1, 2025Updated:اگست 1, 2025کوئی تبصرہ نہیں ہے۔8 Mins Read
    Facebook Twitter Email
    Causes of extremism and terrorism
    ہم سب ایک ہوگئے تو دہشتگرد اکیلے ہو جائیں گے اور پھر ان کا جڑ سے خاتمہ اور ان کو اپنے انجام تک پہنچانا آسان ہوگا ۔
    Share
    Facebook Twitter Email
    (اسلام آباد سے ارشد اقبال کی تحریر)

    ایسا بالکل نہیں ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا بھر میں اس قدر انتہا پسندی تھی اور نہ دہشتگردی ، لیکن امریکہ میں ہوئے مذکورہ واقعے کے بعد دنیا بھر میں جہاں انتہا پسندی میں اضافہ ہوا وہاں دہشتگردی بھی اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئی اور اب دنیا بھر میں شائد ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں انتہا پسندی اور دہشتگردی نہ ہو ۔ لیکن دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں جہاں انتہا پسندی میں بڑی حد تک اضافہ ہوا وہاں وطن عزیز میں دہشتگردی کو بھی پروان چڑھا اور ایسا چڑھا کہ اب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ رہی سہی کسر مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت نے پوری کردی ۔
    اگر ہم یہ کہیں کہ آخر انتہا پسندی کیوں بڑھ رہی ہے اور اس کا وجود کیوں ہے تو شائد نہیں بلکہ یقیناََ یہ ملین ڈالر کا سوال ہوگا ، آج اس نشست میں ہم پاکستان سمیت اس کے پڑوسی ملکوں بالخصوص افغانستان میں انتہا پسندی کی وجوہات اور پھر اس کے تدارک پر روشنی ڈالیں گے ۔

    انتہا پسندی اور بنیاد پرستی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ، آسان الفاظ میں ان دونوں کو ہم مائنڈ سیٹ کہہ سکتے ہیں۔ انتہا پسندی اور بنیاد پرستی دراصل ایک مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے جدید علوم ،خواتین کی تعلیم، بچوں کے ساتھ زبردستی کرنا اور بزورِ بازو ہر کام کروانے کے عادی ہونے کا نام ہے جبکہ دہشتگردی عمل یعنی ایکشن لینے ، زبردستی کرنے ،خوف پھیلانے ، مرنے مارنے،دوسروں کو غلط ثابت کرنے اور خود کو ہمیشہ درست سمجھنے ، چاہے دوسرے غلطی پر نہ بھی ہوں اور اپنی غلطی تسلیم نہ کرنے کا نام ہے ۔ لیکن انتہا پسندی، ذاتی جھگڑوں پر فائرنگ اور قتل کرنے میں لوگ کنفیوژن کا شکار ہیں ، آج ہم یہ کنفیوژن بھی دور کئے دیتے ہیں ۔
    31 اکتوبر 2019 کو اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دہشتگرد کی تعریف سے متعلق پارلیمان کو ہدایات جاری کی تھیں کہ پارلیمنٹ دہشتگردی کی تعریف کرے کہ آخر دہشتگردی ہے کیا چیز اور یہ کس بلا کا نام ہے ۔

    سپریم کورٹ نے نہ صرف پارلیمنٹ کو ہدایت کی تھی بلکہ اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ ’’ منظم منصوبے کے تحت مذہبی، نظریاتی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے پرتشدد کارروائیاں دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہیں‘‘ ۔
    59 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت یا عوام میں منصوبے کے تحت خوف و ہراس پھیلانا، جانی و مالی نقصان پہنچانا دہشت گردی ہے جبکہ منصوبے کے تحت مذہبی فرقہ واریت پھیلانا، صحافیوں، کارباری برادری، عوام اورمعمولاتِ زندگی پر حملے بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں ۔
    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی منصوبے کے تحت سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا، لوٹ مار کرنا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز پر حملے بھی دہشت گردی ہیں تاہم ذاتی دشمنی یا عناد کے سبب کسی کی جان لینا دہشت گردی نہیں ہے۔فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ذاتی عناد یا دشمنی کے باعث سیکیورٹی اہلکاروں اورسرکاری ملازمین کے خلاف پرتشدد واقعے میں ملوث ہونا بھی دہشت گردی نہیں ہے ۔
    عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق انسداد دہشت گردی کا قانون انتہائی وسیع ہے اور اس قانون میں دہشت گردی کے حوالے سے کئی اقدمات اور ڈیزائن ایسے شامل کیے گئے جن کا دہشت گردی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔اور یہ کہ دہشت گردی کے قانون میں ایسے سنگین جرائم کو شامل کیا گیا ہے جن کے سبب عدالتوں پر غیر ضروری بوجھ پڑتا ہے۔ اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم کو دہشت گردی میں شامل کرنے کے سبب دہشت گردی کے اصل مقدمات کے ٹرائل میں تاخیر ہوتی ہے ۔
    فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تیسرے شیڈول میں شامل ایسے تمام جرائم کو ختم کرے جو دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتے ۔
    اس فیصلے میں اور بھی بہت کچھ لکھا گیا تھا لیکن پارلیمنٹ نے آج تک دہشتگردی کی تعریف نہیں کی اور شائد اسی وجہ سے لوگ اس معاملے پر کنفیوزڈ ہیں ۔دہشتگردی ،انتہا پسندی اور بنیاد پرستی پر اگر مقننہ یعنی پارلیمنٹ کام نہیں کرے گی تو کنفیوژن برقرار رہے گی ۔
    اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی اہلکار نے کسی کے ساتھ زیادتی کی اور پھر جواب میں متاثرہ شخص کی جانب سے بھی کارروائی کی گئی تو کیا یہ دہشتگردی کہلائی جائے گی یا اس کو کچھ اور کہا جائے گا ؟ اس سوال کا جواب شائد ہی کوئی دے ، لیکن ہمارے ہاں ایسے معاملات کو بھی دہشتگردی سے جوڑا گیا ہے ۔
    2016 میں میرے ایک چچازاد بھائی(پولیس اہلکار) صابر خان کو مردان کے سنگ مرمر پولیس چوکی میں اپنے ہی ایک سینئر پولیس اہلکار نے گولیوں سے چھلنی کیا ، میرے چچا نے اس معاملے پر متعلقہ پولیس اہلکار کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تو محکمہ پولیس کے افسران نے رابطہ کیا کہ صابر خان کا کیس واپس لیا جائے ، اس معاملے کو پولیس محکمہ دہشتگردی کے بھینٹ چڑھانا چاہتا تھا اور یہ موقف اپنا یا جا رہا تھا کہ صابر خان کے بچوں کو پولیس نوکری، پلاٹ اور ایک بڑا فنڈ( شہدا فنڈ ) مل جائے گا لیکن یہ تمام چیزیں تب ملیں گی جب صابر خان کا والد اپنا کیس واپس لے گا ۔یہ صرف ایک مثال ہے ۔
    اب آتے ہیں انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کے معاملے پر ، دراصل دہشتگردی ، انتہا پسندی اور بنیاد پرستی سے جنم لیتی ہے ۔ دہشتگرد سادہ لوح، کم پڑھے لکھے، کم عمر، بے سہارہ اور بیشتر کمزور زہن کے افراد کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی برین واشنگ کی جاتی ہے ۔

    ان لوگوں کو جنت کے باغوں کے قصے سنائے جاتے ہیں ،ان کو اپنے مقاصد کے حصول کیلئے اپنی مرضی کے شرعی احکامات اور من گھڑت کہانیاں سنائی جاتی ہیں ، ان کو خودکش حملوں کے بعد جنت جانے کے من گھڑت دلائل دیئے جاتے ہیں ، ان کو کہا جاتا ہے کہ صرف وہ مومن و مسلمان ہیں اور باقی اس دنیا میں مومن تو بہت دور کی بات کوئی مسلمان بھی نہیں ہے ۔ یہ ساری محنت ان پر انتہاپسند بننے کے بعد دہشتگرد بننے کیلئے کی جاتی ہے لیکن ان کو ہم دہشتگرد کہتے ہیں یہ خود کو کسی صورت دہشتگرد کہلوانے کے قائل نہیں ہوتے ۔برین واشنگ کی تربیت کے دوران ان کو دنیاداری سے بہت دور رکھا جاتا ہے اور ان کے ذہنوں میں صرف ایک ہی بات بٹھائی جاتی ہے کہ وہ جب بھی کسی علاقے میں حملہ کریں گے تو اس کے بعد یہ فوری طور پر جنت کے حقدار ٹھہریں گے اور ان کو جنت کا ٹکٹ فوری مل جائے گا ۔
    اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ معصوم لوگوں کی اسی طرح تربیت کرتے ہیں اور مساجد سے لے کر عدالتوں ، سیکیورٹی اداروں سے لیکر تھانوں اور تحصیلوں ، اور بازاروں سے لے کر عام جگہوں پر حملے کرتے ہیں تو یہ چپ کر کیوں حملے کرتے ہیں ؟ یہ چپ کر حملے اسی لئے کرتے ہیں کہ ان کو معلوم ہے کہ ان کا یہ کام دنیا کے کسی بھی مذہب میں روا نہیں اور نہ ہی ان کے اس فعل کی اجازت ہے ، دوسری اہم بات یہ ہے کہ آج تک ان دہشتگردوں نے کبھی اپنے بچوں کو خود حملے کرنے کیلئے برین واشنگ کی ہے ؟یہ ہمیشہ دوسروں کے بچوں کو حملوں کیلئے تیار کرتے ہیں ، آپ ان سے سوال کریں تو یہ مارنے اور فتوے لگانے پر اتر آتے ہیں ۔اور پھرمعاشرے میں سوال اٹھانے والوں کا جینا حرام کیا جاتاہے۔
    اب آتے ہیں اس فساد کے خاتمے کی طرف ، انتہا پسندی، بنیاد پرستی اور دہشتگردی کا خاتمہ آسان ہرگز نہیں لیکن ناممکن بھی نہیں ہے ۔ اس کے خاتمے کیلئے سیکیورٹی اداروں، سیاسی جماعتوں، عدالتوں ،بیوروکریسی اور عوام کو ایک پیج پر ہونا سب سے لازم  ہے ، اس کے بغیر اس کا خاتمہ ناممکن ہے ۔جہاں سیکیورٹی اداروں کے اندر ان کے سہولت کاروں کے ثبوت موجود ہیں وہاں سیاسی جماعتوں، عدالتوں ،بیوروکریسی اور عوام کے اندر بھی ان ہی لوگ شامل ہیں جو سہولت کاری کا کردار ادا کرتے ہیں  اور اس سے انکار ممکن نہیں ۔اس فساد کے خاتمے کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت طریقے آزما لئے گئے لیکن یہ کمی کا نام نہیں لے رہی ۔

    اگر دہشتگردی کا خاتمہ کرنا ہے تو اب کی بار حقیقی معنوں میں سب کو ایک ہونا ہوگا ، ہم سب ایک ہوگئے تو دہشتگرد اکیلے ہو جائیں گے اور پھر ان کا جڑ سے خاتمہ اور ان کو اپنے انجام تک پہنچانا آسان ہوگا ۔

    Share. Facebook Twitter Email
    Previous Articleپہلا ٹی 20؛ پاکستان نے ویسٹ انڈیز کو 14 رنز سے شکست دیدی
    Next Article باجوڑ: قبائلی عمائدین اور عسکریت پسندوں کے درمیان امن جرگے کا پہلا راؤنڈ ختم، کل پھر بیٹھک ہو گی
    Arshad Iqbal

    Related Posts

    پولیس کی نئی کمان، نئی ذمہ داریاں،نیا روپ اور آدم خان!

    اکتوبر 8, 2025

    شَرجِیل میمن کا سیاسی وار: اتحادیوں میں پھوٹ ڈالنے کا فن

    اکتوبر 5, 2025

    سیاست کی بازی نہیں، سلامتی کی لڑائی ہے

    ستمبر 29, 2025
    Leave A Reply Cancel Reply

    Khyber News YouTube Channel
    khybernews streaming
    فولو کریں
    • Facebook
    • Twitter
    • YouTube
    مقبول خبریں

    پاکستان کی ہوم سیریز میں جنوبی افریقہ کو سپن جال میں پھنسانے کی تیاری، آصف آفریدی بھی سکواڈ کا حصہ

    اکتوبر 8, 2025

    علی امین گنڈا پور مستعفی، سہیل آفریدی نئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نامزد

    اکتوبر 8, 2025

    بھارت کسی بھی’’نئے نارمل‘‘ کا مقابلہ ایک نئے، تیز اور مؤثر جوابی نارمل سے کیا جائے گا، فیلڈ مارشل عاصم منیر

    اکتوبر 8, 2025

    پاکستان میں 8 اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کے 20 برس مکمل، خوفناک یادیں آج بھی ذہنوں پر نقش

    اکتوبر 8, 2025

    پولیس کی نئی کمان، نئی ذمہ داریاں،نیا روپ اور آدم خان!

    اکتوبر 8, 2025
    Facebook X (Twitter) Instagram
    تمام مواد کے جملہ حقوق محفوظ ہیں © 2025 اخبار خیبر (خیبر نیٹ ورک)

    Type above and press Enter to search. Press Esc to cancel.