پاکستان اور امریکہ کے درمیان حالیہ مذاکرات میں تیل و گیس کے شعبے میں بڑی امریکی سرمایہ کاری کی خبریں ایک مثبت پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ حکومتی ذرائع کے مطابق امریکا پاکستان کے زمینی اور سمندری علاقوں میں تیل و گیس کی تلاش کے لیے 7 ارب 50 کروڑ ڈالرز تک کی سرمایہ کاری پر غور کر رہا ہے۔ اس خبر نے ایک ایسے وقت میں توانائی کے بحران کے شکار ملک میں نئی امیدیں جگا دی ہیں جب معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستان نے امریکی سرمایہ کاروں سمیت عالمی اداروں کو 40 آف شور (سمندری) بلاکس کی بولی کی پیشکش کی ہے، جہاں ہر بلاک کے لیے تقریباً 15 کروڑ ڈالرز کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ اگر تمام بلاکس کی کامیاب بولی لگتی ہے تو یہ 6 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کو جنم دے سکتی ہے۔ یہ نہ صرف تیل و گیس کی پیداوار میں اضافہ کرے گا بلکہ پاکستان کے سمندری وسائل کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کا ایک موقع بھی ہوگا۔
صرف سمندر ہی نہیں بلکہ خشکی پر بھی 23 بلاکس کی پیشکش کی گئی ہے، جہاں ایک بلاک کے لیے 6 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری درکار ہے۔ اگر تمام بلاکس کی کامیاب نیلامی ہو جاتی ہے تو پاکستان کو ڈیڑھ ارب ڈالرز تک کی سرمایہ کاری مل سکتی ہے۔ ان بلاکس کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ خشکی پر کام کرنا تکنیکی لحاظ سے نسبتاً آسان اور لاگت میں کم ہوتا ہے، جس سے جلد نتائج متوقع ہیں۔
ترکش پیٹرولیم کمپنی کی جانب سے بھی سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار پاکستان کے لیے ایک اور خوش آئند خبر ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ خطے کے ممالک پاکستان کے توانائی کے ذخائر میں عملی دلچسپی رکھتے ہیں۔ ترکی کی شمولیت سے نہ صرف اقتصادی تعاون بڑھے گا بلکہ سفارتی تعلقات کو بھی تقویت ملے گی۔
حکومت کی جانب سے طے کی گئی بولی کی تاریخیں بھی طے ہو چکی ہیں: سمندر میں تیل کی تلاش کے لیے 31 اکتوبر اور خشکی کے بلاکس کے لیے 10 اکتوبر کو نیلامی کی جائے گی۔ ان تاریخوں کو پاکستان کی توانائی کی تاریخ میں اہم موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
یہ تمام تر خبریں بلاشبہ خوش آئند ہیں، مگر یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ محض بولی کی پیشکش سے معاملات مکمل نہیں ہوتے۔ شفافیت، سیاسی استحکام، اور قانونی تحفظات ایسے عوامل ہیں جن پر سرمایہ کار سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اگر پاکستان ان پہلوؤں پر سنجیدگی سے کام کرے اور غیر ضروری بیوروکریسی کو کم کرے تو اس شعبے میں تاریخی تبدیلی آ سکتی ہے۔
امریکی سرمایہ کاری کے امکانات اور ترک کمپنی کی دلچسپی اس بات کا عندیہ ہیں کہ پاکستان کے تیل و گیس کے ذخائر میں عالمی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ اگر حکومت اس موقع سے صحیح طور پر فائدہ اٹھاتی ہے، تو یہ نہ صرف توانائی بحران کے خاتمے میں مدد دے گا بلکہ معیشت کو نئی جِلا بھی بخشے گا۔