حال ہی میں ایران، پاکستان اور ترکیہ نے ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے جس کے تحت تینوں ممالک کے درمیان ریلوے کوریڈور کو دوبارہ فعال کیا جائے گا۔ یہ کوریڈور تہران، اسلام آباد اور استنبول کے درمیان کا واحد اہم زمینی رابطہ ہے، جو کئی دہائیوں سے چل رہا ہے مگر اب اسے جدید خطوط پر دوبارہ فعال کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
ایران اور پاکستان کے درمیان یہ ریلوے رابطہ ایک صدی قدیم ہے، جسے اب جدید معیارات کے مطابق دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایران سے پاکستان کے شہر میر جاوہ تک جانے والی ریلوے لائن تقریباً 100 سال پرانی ہے، اور اس کا بنیادی ڈھانچہ اب اس قابل نہیں رہا کہ وہ موجودہ تجارتی ضروریات کو پورا کرسکے۔ اس لیے دونوں ممالک نے اس روٹ کو جدید بنانے کا عہد کیا ہے تاکہ تجارت کے دوران سہولت اور کارکردگی میں اضافہ ہو سکے۔
ایران، پاکستان اور ترکی نے حالیہ مذاکرات میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایک ہفتے میں باقاعدہ ریلوے ٹریفک چلائیں گے۔ اس اقدام کا مقصد نہ صرف تجارت کو فروغ دینا ہے بلکہ اس کے ذریعے سرحدی علاقوں میں بھی معاشی سرگرمیاں بڑھائی جائیں گی۔ تینوں ممالک کا ماننا ہے کہ یہ ریلوے کوریڈور اقتصادی تبادلے کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرے گا اور اس کے ذریعے نہ صرف خطے کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر بھی ان ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔
پاکستان اور ایران کے درمیان سب سے بڑا تجارتی حجم سڑکوں کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ اسی لئے دونوں ممالک نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ موجودہ سرحدی ٹرمینلز کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے۔ اس حوالے سے میر جاوہ اور رم دان سرحدی ٹرمینلز کو مزید مستحکم اور تیز تر بنایا جائے گا تاکہ تجارت کی روانی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ آئے۔
پاکستان اور ایران نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی تعاون کے 22ویں معاہدے کے تحت سالانہ تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک پہنچانے کا ہدف مقرر کریں گے۔ اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے دونوں ممالک کو سرحدی ٹرمینلز کی جدید کاری اور دیگر بنیادی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
یہ تمام اقدامات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی طرف ایک اہم قدم ہیں۔ اگرچہ تجارتی ٹریفک کا حجم ابھی کم ہے، مگر اس معاہدے کے بعد اس میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ ایران، پاکستان اور ترکی کے درمیان اس ریلوے کوریڈور کی بحالی سے نہ صرف خطے کی معیشت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی سطح پر ان ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون میں بھی اضافہ ہوگا۔