تحریر: مبارک علی
پاکستان نے ۲۰۲۵ء کی جنگ "بنیانِ مرصوص” میں بھارت کے خلاف شاندار فتح حاصل کرکے پہلے عسکری اور پھر سفارتی و معاشی میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کے جھنڈے گاڑ دیے۔ یہ جنگ ۱۹۶۵ء، ۱۹۷۱ء اور کارگل تنازعات کے بعد سب سے بڑا پاک-بھارتی تصادم تھی، اور اس میں واضح فتح نے پاکستان کی عسکری طاقت اور بہتر حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت پیش کیا۔ اس فتح نے نہ صرف پاکستان کی دفاعی صلاحیت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا بلکہ عالمی برادری، بالخصوص امریکہ کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان کو باضابطہ طور پر اس جنگ کا فاتح اور جوہری طاقت تسلیم کرے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد بار کہا کہ بھارت کی درخواست پر انہوں نے ثالثی کی کیونکہ دونوں ممالک جوہری صلاحیت رکھتے ہیں اور یہ تنازعہ جوہری تصادم میں بدل سکتا تھا۔
جنگ کے بعد پاکستان نے سفارتی اور معاشی میدانوں میں بھی اپنا لوہا منوایا، اور سعودی عرب کے ساتھ طے پانے والا دفاعی معاہدہ اس کی سب سے نمایاں مثال ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک میں سے کسی ایک پر حملہ، دونوں پر حملہ تصور ہوگا جو نیٹو کے آرٹیکل ۵ سے مشابہت رکھتا ہے۔ یہ معاہدہ پاکستان کی سفارتی صلاحیت اور سعودی عرب کے ساتھ ۱۹۸۰ء کی دہائی سے چلے آئے گہرے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے۔ اسی طرح آذربائیجان، ترکی، ملائیشیا اور دیگر ممالک کے ساتھ تزویراتی تعلقات نے پاکستان کی سفارتی کامیابیوں کو مزید تقویت دی۔
پاکستان کی یہ کامیابیاں چند اندرونی و بیرونی مخالفین کے لیے ناقابلِ ہضم ہیں، اور وہ عجیب و غریب دلائل کے ذریعے بھارت کے خلاف تاریخی فتح اور پاک-عرب معاہدے میں نقائص تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی مسلح افواج نے میدانِ جنگ میں اور حکومتی انتظامیہ نے سفارتی و معاشی میدانوں میں دشمنوں کے ہر حربے کو ناکام بنا دیا ہے۔ بھارت کی پاکستان دشمنی اور اپنی تمام ناکامیوں کے لیے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرانا ان کا وطیرہ رہا ہے، لیکن افغانستان کا مخاصمانہ رویہ عوامی سطح پر ناقابلِ فہم ہے۔ افغانستان کی جانب سے ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی حمایت پاکستان کے لیے ناقابلِ قبول ہے اور باہمی تعلقات میں بنیادی رکاوٹ ہے۔
افغانستان کو چاہیے کہ وہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر پاکستان کے جائز مطالبات مانتے ہوئے دوستی اور تعاون کی راہ اپنائے، جس سے نہ صرف افغانستان بلکہ پورا خطہ امن و استحکام کی جانب بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ برادرانہ تعلقات خطے میں امن کی ضمانت ہیں، اور افغانستان کو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مثبت تعلقات کی بنیاد رکھنی چاہیے۔ دشمنی کی بجائے دوستی میں افغانستان کا اپنا فائدہ ہے، کیونکہ پاکستان کے ساتھ مل کر وہ معاشی ترقی، سیکیورٹی اور استحکام کے نئے مواقع حاصل کر سکتا ہے۔ وقت ہے کہ افغانستان تعاون کا ہاتھ بڑھائے اور خطے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔